سی این جی صنعت کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ،معاملہ 2014 سے ایکنک میں زیر التواء ہے،سی این جی مالکان ایل این جی درآمد کر سکتے ہیں ، اوگرا کی گیس کی قیمتوں پر نظرثانی نہ ہونے کی وجہ سے ایس ایس جی پی ایل کو 47 ارب اور ایس این جی پی ایل کو30 ارب کے خسارے کا سامنا ہے، سینیٹ ذیلی کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کو چیئرمین اوگرا سعید احمد،ڈی جی گیس قاضی سلیم کی بریفنگ

جمعرات 28 جنوری 2016 21:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 جنوری۔2016ء ) سینیٹ ذیلی کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سی این جی صنعت کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ایکنک میں معاملہ 2014 سے زیر التواء ہے،سی این جی مالکان ایل این جی درآمد کر سکتے ہیں ، اوگرا کی طرف سے گیس کی قیمتوں پر نظرثانی نہ ہونے کی وجہ سے ایس ایس جی پی ایل کو 47 ارب اور ایس این جی پی ایل کو30 ارب کے خسارے کا سامنا ہے۔

جمعرات کو سینیٹ ذیلی کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس کمیٹی کے کنونیئر سینیٹر شاہی سید کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سی این جی مالکان کی مشکلات ، جی ایس ٹی 17 فیصد سے34 فیصد کرنے پر شٹ ڈاؤن کال اور اوگرا کی طرف سے گیس قیمتوں میں 50 فیصد اضافے کے معاملات زیر بحث آئے۔

(جاری ہے)

کنونیئر کمیٹی سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ مین پائپ لائنوں سے براہ راست گیس چوری کی جاتی رہی ۔

چوروں کو سزا دینے کی بجائے شریفوں کے کاروبار کا خاتمہ غلط فیصلہ تھا اور ہے پچھلی حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی سی این جی شعبہ کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی ذمہ دار ہے اور کہا کہ آزاد آڈیٹر نے بھی قیمت 76 روپے 64 پیسے کا فیصلہ کیا تھا جن مالکان نے جی آئی ڈی سی جمع کر دیا ہے ان کا کیا قصور ہے ۔دو سال سے حکومت کی نااہلی سامنے ہے بجائے معاملہ حل کرنے کے ابھی آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں ۔

سینیٹر یوسف بادینی نے کہا کہ تمام معاملات کی ذمہ داری وزارت کی ہے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنیوالی صنعت تباہی کی طرف جا رہی ہے اور بے روز گاری بھی بڑھ رہی ہے ۔ناانصافیوں سے ہی شورش بڑھتی ہے ۔ ڈی جی گیس قاضی سلیم نے آگاہ کیا کہ سی این جی صنعت کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایکنک میں معاملہ 2014 سے زیر التواء ہے اور کہا کہ ایل این جی کو سی این جی مالکان بھی خود ایمپورٹ کر سکتے ہیں ۔

کل ویلیوایٹڈ کاسٹ فی کلو گرام 64 روپے80 پیسے ہے اور 17 فیصد جی ایس ٹی الگ ہے ۔ ریجن ون میں قیمت فی کلو گرام 75 روپے82 پیسے اور ریجن ٹو میں67 روپے 50 پیسے ہے ۔جی ایس ٹی ایف بی آر کی طر ف سے 17 فیصد گیس قیمت پر لاگو کیا گیا ہے ۔چیئرمین اوگرا سعید احمد نے آگاہ کیا کہ اوگرا آرڈنینس 2002 کے تحت گیس قیمتوں کو تعین کرتا ہے ۔اوگرا نے18 دسمبر 2015 کو گیس کمپنیوں کے ریونیو طے کرنے کی سفارش کی تھی جس کا کوئی جواب نہیں آیا اور بتایا کہ پیڑول کی قیمتوں کے کیس کی سماعت کے 2008 کے دوران سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر نے رضا کارانہ مارجن واپس لینے کا اعلان کیا جس سے قیمتوں میں 30 روپے کمی آئی ۔

ڈی جی گیس نے آگاہ کیا کہ اوگرا کی طرف سے گیس کی قیمتوں پر جنوری2013 سے نظرثانی نہ ہونے کی وجہ سے ایس ایس جی پی ایل کو 47 ارب اور ایس این جی پی ایل کو30 ارب کے خسارے کا سامنا ہے ۔سی سی آئی میں بجھوائی گئی سمری کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں جس پر چیئرمین اوگرا نے کہا کہ وزارت پیڑولیم کی طرف سے بھیجی گئی سمری سے لا علم ہیں ۔ کنونیئر کمیٹی شاہی سید نے کہا کہ 2013 سے بجلی کے یونٹ میں 9 روپے سے 16 مزدور کی تنخواہو میں8 ہزار سے 12 ہزار سی این جی میں استعمال ہونے والے پرزہ جات اور دوسرے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔

سی این جی قیمتیں نہیں بڑھی ممبر کمیٹی یوسف بادینی نے کہا کہ ایل این جی اور سی این جی کی قیمتوں کے بارے میں ابہام ختم ہونا چاہیے کمیٹی میں قرار دیا گیا کہ 2013 سے اوگرا سی این جی سیکٹر کی بحالی کیلئے تجاویز بھیج رہاہے حکومت ناکام رہی وزارت کی نااہلی ہے ۔ سی این جی ایسوسی ایشن کے نمائندوں شبیر ، جنید، بشیر نے آگاہ کیا کہ سی این جی سیکٹر کو 67 ارب کا نقصان ہو چکا ہے ۔

تین ہزار میں سے 22 سو سی این جی بند ہو گئے ہیں اور مالکان قرضوں تلے دبے ہیں ۔کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا کہ جی ایس ٹی کے حوالے سے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں فرق سی این جی کو ریگولیٹ کرانے کے حوالے سے کوششیں اور آڈیٹر کی رپورٹ کے علاوہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر آئندہ ایک اور اجلاس منعقد کر کے سی این جی سیکٹر کی مشکلات کے ازالے کیلئے ٹھوس اقدامات کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر ز یوسف بادینی ، چیئرمین اوگرا سعید احمد ، ڈی جی گیس قاضی سلیم اور ایف بی آر کے حکام نے شرکت کی ۔