با چا خان یونیورسٹی پر حملہ ہماری تحریک پر حملہ تھا ، پختونوں کا مزیدقتل عام برداشت نہیں کیا جائیگا ‘اے این پی نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایک ہزار کے لگ بھگ ممبران اسمبلی عہدیداروں اور کارکنوں کی قربانیاں دیں ‘ اس کے صلے میں ہمیں اسمبلیوں سے باہر نکال دیا گیا ،طالبان کے دوستوں کو حکومت دی گئی جو ان کے کیلئے دفتر کھولنے کے متلاشی رہے ‘حکومت ہوش کے ناخن لے اور پختونوں کا مزید خون بہنے سے روکے

اے این پی کے سینئر نائب صدر حاجی غلام احمد بلور کاباچا خان اور ولی خان کی برسی پر دعائیہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو

منگل 26 جنوری 2016 22:36

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 جنوری۔2016ء ) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور ممبر قومی اسمبلی حاجی غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ با چا خان یونیورسٹی پر حملہ ہماری تحریک پر حملہ تھا اور اب پختونوں کا مزیدقتل عام برداشت نہیں کیا جائیگا ‘اے این پی نے پانچ سالہ دور اقتدار میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایک ہزار کے لگ بھگ ممبران اسمبلی عہدیداروں اور کارکنوں کی قربانیاں دیں ‘جس کے صلے میں ہمیں اسمبلیوں سے باہر نکال دیا گیا اور طالبان کے دوستوں کو حکومت دی گئی جو ان کے کیلئے دفتر کھولنے کے متلاشی رہے ‘حکومت ہوش کے ناخن لے اور پختونوں کا مزید خون بہنے سے روکے ۔

وہ منگل کو یہاں باچا خان مرکز پشاور میں باچا خان اور ولی خان کی برسی کے کے حوالے سے منعقدہ ختم القرآن اور دعائیہ تقریب کے بعد میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خدائی خدمت گار تحریک کے بانی اور رہبر تحریک کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کی گئی ، حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ اے پی ایس واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا تاہم اس کے تمام 20نکات پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا جس کے نتیجے میں باچا خان یونیورسٹی جیسے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم دہشتگردی کا ایک طویل عرصے سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی ہم اس مقابلے کیلئے تیار ہیں تاہم اگر باچا خان اور ولی خان کی بات مان لی جاتی تو آج خطے میں پختونوں کا اتنا خون نہ بہتا اور نہ ہی مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑتا۔ مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین نے اس موقع پر کہاکہ حکومت اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی پرنظرثانی کرے ،نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد نہیں ہوپارہاہے،اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کودور کیاجائے،اُنہوں نے کہا کہ ہم جنازے اُٹھاتے تھک چکے ہیں اور یہ التجا کرتے ہیں کہ اس خونی کھیل کو روکا جائے ۔

تاہم آج اگر ہم، پیار سے بات کرتے ہیں توکل ہمارا لہجہ تلخ بھی ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صرف وزیرستان میں جاری محدود آپریشن سے امن کا قیام دیوانے کا خواب ہے،جب تک پورے ملک بشمول پنجاب جہاں اب بھی ستر سے زائد کالعدم تنظیمیں مختلف ناموں سے موجود ہیں ان کے خلاف تیز آپریشن کیاجائے،باچاخان یونیورسٹی پرحملہ ہماری سوچ اور تحریک پرحملہ ہے،مرکزی حکومت نے اس سانحہ کو سنجیدہ نہیں لیا،سانحہ کو اے پی ایس کی طرح سنجیدہ لینا ہوگا،ورنہ یہ خونی کھیل اور بھی تباہی مچائے گا،انہوں نے کہا وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں پندرہ لاکھ متاثرین کا اب کوئی پرسان حال نہیں،انہوں نے کہا کہ ہمارے دکھ درد کو سمجھا جائے،ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کا عمل ترک کیاجائے،انہوں نے مولانا فضل اﷲ کی ہلاکت کو تاحال مشکوک قراردیا،انہوں نے کہا پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے رابطوں کو بڑھانا ہوگا، اور دونوں ممالک کو دہشت گردوں کے خلاف جائنٹ ایکشن لینا ہوگا،انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سست رفتاری سے دہشت گرد دوبارہ منظم ہورہے ہیں،انہوں نے کہا کہ اچھے اور برے طالبان کی تمیزکو ختم کرنا ہوگا،جہاں سے بھی دہشت گردی اور شدت پسندی کی نظریاتی تعلیم پھیلتی ہے اس کے خلاف فوری ایکشن لینا ہوگا۔

اے این پی خیبر پختونخوا کے صدر امیر حیدر خان ہوتی نے اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے قیام کی کوششوں پر اے این پی کو 2013 میں دیوار سے لگایا گیا ، عہدیداروں اور کارکنوں کو شہید کیا گیا تاہم اُنہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ موجودہ صوبائی حکومت کے پہلے اڑھائی سال تک صوبے میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

لیکن 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں اے این پی کے دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر دہشتگردی کی کارروائیاں شروع ہو گئیں اور ہمارے خلاف خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں اس دھرتی پر پیار و محبت امن اور عدم تشدد کی پرچار کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ اگر ہمارے اکابرین کی بات مان لی جاتی تو آج ہمیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔

اُنہوں نے کہا کہ دہشتگرد اور اُن کے ساتھی ہماری سوچ اور فکر سے ڈرتے ہیں لیکن ہم ڈرنے والوں میں سے نہیں۔ اُنہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دہشتگردی کا مسئلہ مرکزی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونا اس کا واضح ثبوت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی پر حملوں کے بعد اب صوبے کے عوام وزیر اعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ پاک افغان تعلقات کی بحالی اور نیشنل ایکشن پلان کے تمام 20 نکات پر من و عن عمل کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ہم اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔