شام میں امن سے متعلق مذاکرات جمعہ سے شروع ہونگے

شام میں فوری جنگ بندی اولین ترجیح ،جنیوامذاکرات میں جنگ بندی پربات کی جائیگی،اقوام متحدہ

منگل 26 جنوری 2016 11:56

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔26 جنوری۔2016ء) شام میں امن سے متعلق مذاکرات جمعہ سے شروع ہوں گے جبکہ اقوام متحدہ میں شام کے مندوب کا کہنا ہے کہ شام میں فوری جنگ بندی اولین ترجیح ہے،جنیوامذاکرات میں شام میں جنگ بندی پربات چیت کی جائیگی،قیام امن کیلئے آئندہ جمعے سے شروع ہوں گے،شام کے تنازعے پر مذاکرات جمعے کو منعقد ہوں گے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شامی تنازعے کے سیاسی حل کے لیے مذاکرات آئندہ جمعہ کو جنیوا میں متوقع ہیں۔اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر سٹافن ڈی میستورا نے تسلیم کیا ہے کہ مذاکرات کے شرکا کے بارے میں تاحال بات چیت جاری ہے۔ان مذاکرات کی ترجیحات میں وسیع جنگ بندی اور خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی تنظیم کو روکنا اور متاثرین کی امداد میں اضافہ کرنا ہے۔

(جاری ہے)

سٹافن ڈی میستوراکی جانب سے مذاکرات کی تاریخ کا اعلان ایے ایسے وقت کیا گیا ہے جب حلب میں باغیوں کی چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔اس سے پہلے شرکا کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کی وجہ مذاکرات میں تاخیر ہو چکی ہے تاہم سٹافن ڈی میستورا کے مطابق توقع ہے کہ جمعرات تک شرکا کو دعوت نامے بھیج دیے جائیں گے۔

سٹافن ڈی میستورا کے مطابق ان مداکرات میں دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروہوں کی شرکت کے امکان کو مسترد کیا جا چکا ہے تاہم دیگر باغی گروہوں کی شرکت کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔ترکی نے مذاکرات میں شام کے کرد گروہوں کی شرکت کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ گروہوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور اس کے نزدیک ان کی شرکت سے مذاکرات ناکام ہو سکتے ہیں۔

سٹافن ڈی میستورا کے مطابق مذاکرات کا پہلا مرحلہ دو سے تین ہفتوں پر مشتمل ہو گا۔اس کے ساتھ انھوں نے خبردار کیا کہ مذاکرات میں کافی گرما گرمی ہو سکتی ہے جس میں متعدد بار بائیکاٹ اور دوبارہ شرکت متوقع ہے۔گذشتہ ماہ ہی شامی حکومت نے کہا تھا کہ وہ ملک میں جاری شورش کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔واضح رہے کہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :