اڈیالہ جیل میں میرے شوہر کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں،شوہر نے ہمیں بیرون ملک چلے جانے کی ہدایت کی ہے ، وصیت میں کہاکہ میں مرجاؤں تو میری تدفین خاموشی سے کردی جائے

ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کیس میں گرفتار ملزم خالدشمیم کی اہلیہ بینا خالد کی پریس کانفرنس

پیر 25 جنوری 2016 21:57

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 جنوری۔2016ء) متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کیس میں گرفتار ملزم خالدشمیم کی اہلیہ بینا خالد شمیم نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں میرے شوہر کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔میرے شوہر نے خط کے ذریعہ ہمیں آگاہ کیا ہے کہ میں اور میرا بیٹا بیرون ملک چلے جائیں ۔اگر میں مرجاؤں تو میری تدفین خاموشی سے کردی جائے ،خالد شمیم سے تشدد کے ذریعہ مرضی کے بیانات دلوائے جارہے ہیں ۔

خالد شمیم نے 164کا جو بیان ریکارڈ کرایا ہے اس سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے ،چیف جسٹس آف پاکستان میرے شوہر کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے ازخود نوٹس لیں ۔وفاقی وزیر داخلہ خالد شمیم سے اہل خانہ کی ملاقات کے احکامات جاری کریں ۔

(جاری ہے)

میرا اور میرے شوہر کا متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ہم بانیان پاکستان کی اولاد ہیں ۔ہماری ہمدردی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے ۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیس میں ہماری مدد کریں ۔وہ پیر کو پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطا ب کررہی تھیں،اس موقع پر ان کے صاحبزادے بھی موجود تھے،انہوں نے کہا کہ میرے شوہر کی زندگی خطرے میں ہے ۔انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ہماری ان سے ملاقات نہیں کی جارہی ہے ۔اس کیس میں آئینی تقاضے پورے نہیں کیے جارہے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے ۔

وقوعہ برطانیہ میں ہوا ہے ۔تفتیش بھی برطانیہ کررہا ہے اور کیس سے متعلق سرکس پاکستان میں لگا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میرے شوہر کو فوری برطانیہ بھیجا جائے ۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا ۔اس کیس میں ریاست پاکستان کا مدعی بننا ایک سوالیہ نشان ہے ۔ڈاکٹرعمران فاروق غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے فرار ہوئے ۔ان کے سر پر لاکھوں روپے انعام رکھا گیا تھا ۔

انہوں نے بخوشی برطانوی شہریت اختیار کی ۔میرے شوہر پاکستانی ہیں اور میں حلفیہ کہتی ہوں کہ وہ کبھی برطانیہ نہیں گئے ۔164کے بیان میں یہ بتایا گیا ہے کہ میرے شوہر افغانستان سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے چمن بارڈر سے گرفتار ہوئے لیکن میری آنکھوں کے سامنے 6جنوری 2011کو ملیر ہالٹ سے سادہ لباس اہلکاروں نے میرے شوہر کو حراست میں لیا ۔

اس سارے واقعہ کی پٹیشن 12جنوری 2011کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس کا نمبر CP76/2011ہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا اور میرے شوہر کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر ماڈل کالونی تھانے میں درج کی گئی جس کا نمبر 83/2011ہے ۔پشاور ہائی کورٹ کے علاوہ لاپتہ افراد کمیشن میں بھی میرا کیس چلا ۔انہوں نے کہا کہ 8جون 2011کو سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے مفصل معلومات فراہم کیں ۔

انہوں نے کہا کہ میرے شوہر 2011سے ریاستی اداروں کی تحویل میں تھے ۔اب انہیں جب سے منظر عام پر لایا گیا ہے ایک تماشہ بنادیا گیا ہے اور زبردستی ان سے بیان لیا گیا ہے ۔ان کا معظم علی خان ،کاشف اور محسن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہم انہیں جانتے ہیں ۔اب ہم نے وکلاء سے مشورے کے بعد ایک وکیل کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے شوہر کو بچانے کے لیے آخری دم تک کیس لڑوں گی اور پاکستان سے نہیں جاؤں گی ۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ جو اہم مواقعوں پر غائب ہوجاتے ہیں وہ صرف میرے شوہر کے کیس کے لیے منظر عام پر آتے ہیں ۔میں ا ن سے انسانی ہمدردی کے نام پر اپیل کرتی ہوں کہ اڈیالہ جیل میں ان سے ہماری ملاقات کرائی جائے اور اس کیس میں قانون کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ خالد شمیم کی حالت اس وقت خراب ہے اور وہ ذہنی دباؤ میں آکر مختلف بیانات دے رہے ہیں ۔

انہوں نے 4جنوری 2016کو ایک خط لکھا تھا جس میں ہمیں ملک سے باہر جانے کا مشورہ دیا ۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی وجہ سے ہمارا گھر بک چکا ہے ۔اسلام آباد آنے اور جانے کے ڈیڑھ لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں ۔ہمارے گھریلو حالات بہت خراب ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میرے شوہر واٹر بورڈ میں چپراسی نہیں بلکہ 17گریڈ کے افسر ہیں ۔انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ہماری مدد کریں۔