چارسدہ حملے پر سکیورٹی فورسز کا فوری ردعمل حوصلہ افزا ہے ، نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے‘ ایچ آر سی پی

جمعرات 21 جنوری 2016 16:37

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21 جنوری۔2016ء) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے چارسدہ میں دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن پر نظرثانی کی جائے اور نیشنل ایکشن پلان، خاص طور پر دہشت گرد گروہوں کو تربیت اور معاونت فراہم کرنے والے مراکز اور تنظیموں کے خلاف کاروائی سے متعلق ایجنڈے پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔

میڈیا سیل کی طرف سے جاری ہونے ایک بیان میں کمیشن نے کہاکہ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے پر قوم کے غم میں برابر کا شریک ہے اورجاں بحق ہونے والے 20 معصوم افراد کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔

(جاری ہے)

ان میں سے 18 نوجوان طالب علم تھے جنہیں حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

اس واقعے کی کئی وجوہات کی بنا پرشدید مذمت کی جانی چاہئے۔ پہلی یہ کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی طرح دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر طلباء کو نشانہ بنایا جو پاکستان کا مستقبل ہیں، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے کتنے بڑے دشمن ہیں۔ دوسری یہ کہ چند ہفتوں کے دوران یہ دہشت گردی کا تیسر ابڑا واقعہ ہے اور اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہشت گرد اب بھی جہاں چاہیں آزادانہ طور پر حملہ کرسکتے ہیں۔

اور تیسری یہ کہ اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ یہ واقعہ اس جنگ کا تسلسل ہے جو دہشت گرد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے خلاف ان کی قوم پرست، سیکولر اور انتہا پسندی مخالف پالیسیوں کی بنا پر جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ اپنے سینکڑوں کارکنوں اور حامیوں سے محروم ہوچکی ہے۔اگر دہشت گردی کی حالیہ لہر سے سبق حاصل نہ کیا گیا تو پاکستان کو اس سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ امر دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے باعث اطمینان نہیں ہونا چاہیے کہ اے این پی انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ان کی باری بھی آسکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ توقع سے زیادہ جلد آجائے۔ چنانچہ تمام جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھلے دل سے شریک ہونا چاہئے۔ خاص طور پر کے پی کی حکومت کو چاہیے کہ وہ انتہا پسندوں کو دودھ اور شہد کی پیشکش کے ذریعے تشدد سے باز رکھنے کی پالیسی پر نظرثانی کرے۔

دوئم، تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنے کی بجائے خطرات کے اسباب کو ہدف بنانے پر غور کیا جائے۔ اگرچہ چارسدہ حملے پر سکیورٹی فورسز کا فوری ردعمل حوصلہ افزا ہے، دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن پر سنجیدہ نظرثانی کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔ اس موضوع پر سینٹ کی قرارداد سے یہ حقیقت اور بھی زیادہ واضح ہوگئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نیشنل ایکشن پلان اس وقت تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا جب تک دہشت گردوں کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے والے اداروں اور گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔

متعلقہ عنوان :