پیرزادہ عاشق کیرانوی کی پہلی برسی کے موقع پر تعزیتی اجلاس کا انعقاد

بدھ 20 جنوری 2016 13:34

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔20 جنوری۔2016ء)معروف شاعرومحقّق پیرزادہ شرفِ عالم نے کہا ہے کہ ترقّی پسند شعرا و مصنفّین اردو ادب میں وقتی ہیجان تو برپا کر پائے ہیں مگر اپنی محدود اور زمانی طرزِ فکر کے باعث اردو ادب کو انتہائی سطحی مقام پر لاکھڑا کیا ہے اور جدید ذہن جنس، مادّیت اور لادینیت سے آلودہ لٹریچر کی مسلسل تخلیق کے باعث تاریخی پستی کو چھو رہا ہے۔

وہ پاکستان ریڈرز گلڈ کے زیرِ اہتمام اردوکی سب سے طویل ترین اردو غزل کے خالق پیرزادہ عاشق کیرانوی کی پہلی برسی کے موقع پر تعزیتی اجلاس سے خطاب کررہے تھے جسکے مہمانِ خصوصی معروف سائنسدان و ماہرِ اطلاقی طبعیات جناب آفتاب احمد عثمانی تھے۔اپنے خطاب میں پاکستان ریڈرز گلڈ کے چئرمین و شاعر پیرزادہ شرفِ عالم نے کہا کہ بحیثیتِ مجموعی موجودہ شعرا و مصنفین ایک خود غرض ، شاطر اور مادّہ پرست حیوانی طبقے کی شکل اختیار کرچکے میں جہاں ادب کے نام پر حق تلفی، شاعری کے نام پر نفس پروری اور نثر کے نام پر دروغ گوئی جاری و ساری ہے جبکہ ملک میں ادبی و ثقافتی تنزلّی کی اک نمایاں وجہ نامور ادبی شخصیات میں سرایت کردہ صوبائی، فرقہ ورانہ و علاقائی تعصبّ ہے جس سے بالاتر ہوئے بغیر ادبی سرگرمیوں کا فروغ محض خام خیالی ہے۔

(جاری ہے)

اپنے خصوصی خطاب میں پی سی ایس آئی لیبارٹری سے منسلک معروف سائنسدان و ماہرِ اطلاقی طبعیات جناب آفتاب احمد عثمانی نے کہا کہ پاکستان میں اردو ادب کے فروغ کیلیے وقف ادارے بشمول مقتدرہ قومی زبان، مجلسِ ترقیّ اردو ادب اور اکادمی ادبیات اسلام آباد ملکر بھی اتنا کام نہ ادا کرپائے جتنا پیر زادہ عاشق کیرانوی نے تنِ تنہا انجام دیا ۔ لاکھوں اشعار کے خالق پیر زادہ عاشق کیرانوی نہ صرف پاک و ہند بلکہ عالمی سطح پر گنوائے جانے کے قابل ہیں مگر حکومتی سطح پر عدم توجہی کے سبب عاشق کیرانوی جیسی بلند پایہ ادبی شخصیت محض اِک شاعرِگُمنام بن کے رہ گئی ۔

انہوں نے اپیل کی کہ پیر زادہ عاشق کیرانوی کی شعری خدمات کو حکومتی سطح پر سرایا جائے اور انکے دیگر غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت کا اہتمام کیاجائے۔انہوں نے مزید کہا کہ اہل شعراء و ادیبوں کی حکومتی سرپرستی کے حوالے سے مجموعی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے جبکہ سرکاری خرچے پر موج کرتے ہوئے پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز جیسے کاغذی ادارے ماسوائے اپنی ذاتی تشہیر اہل ترین قلم کاروں و شعراء کی ممکنہ سرپرستی و تعاون میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جسکی باعث اتھا ہ تخلیقی صلاحیتوں کی حامل بیشمار ادبی شخصیات گوشہء گمنامی میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

تعزیتی اجلاس میں ڈاکٹر فرید الدین شہاب نے کہا کہ ادبی سرگرمیوں کی ترویج میں حکومتی سرد مہری اس بات کی غماذ ہے کہ ہمارے ملک کو شاید اب ادیبوں، دانشوروں اور شعراء کی ضرورت نہیں رہی۔ پیرزادہ عاشق کیرانوی 30 ہزا ر منفرد اشعار پر مبنی دنیا کی شعری و ادبی تاریخ کی طویل ترین غزل بعنوان ”ایک غزل “ ”گھٹا برسے تو صحرا بولتا ہے“ کے خالق تھے جو کہ اپنی نوعیت کا ایک عالمی ریکارڈ ہے۔مرحوم کی نمایاں شعری مطبوعات میں مثنوی طلوعِ سحر ، قائد کے حضوراوران گِنت شعری مجموعے شامل ہیں۔