اقتصادی راہداری منصوبہ ملک کے بہترین مفاد میں اور اس کی تکمیل پاکستان کیلئے ”گیم چینجر“ ہے، تنازعات ختم کر کے منصوبے کو اولین بنیادوں پر مکمل کیا جائے، وزیراعظم کی جانب سے قومی قیادت کو اس منصوبے پر اعتماد میں لینے کا عمل قابل تعریف ہے، ایوان بالا کے اجلاس میں اراکین کا اظہار خیال

منگل 19 جنوری 2016 22:35

اسلام آباد ۔ 19 جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔19 جنوری۔2016ء) ایوان بالا میں اراکین نے اقتصادی راہداری منصوبے کو ملک کے بہترین مفاد میں اور اس کی تکمیل کو پاکستان کیلئے ”گیم چینجر“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پڑوسی ملک بھارت اس منصوبے کا مخالف ہے، تنازعات ختم کر کے اس منصوبے کو اولین بنیادوں پر مکمل کیا جائے، وزیراعظم کی جانب سے قومی قیادت کو اس منصوبے پر اعتماد میں لینے کا عمل قابل تعریف ہے، وزیراعظم اس ایوان میں آ کر اس منصوبے پر اعتماد میں لیں۔

منگل کو ایوان بالا میں پی پی کے سینیٹر عثمان سیف اللہ خان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے بارے میں تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ سے اگر کسی صوبے کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے تو بھی اس کو ہونا چاہئے، اس منصوبے سے پاکستان کو فائدہ ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

اس منصوبے پر اگر شروع میں ہی مشاورت ہوتی تو تنازعہ نہ ہوتا۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے بلوچستان کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ اس منصوبے پر اگر تمام قومی قیادت کو اتفاق ہے تو ہمیں بھی اعتماد ہے۔ میاں محمد عتیق نے کہا کہ ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ اس اہم منصوبے کو کون متنازعہ بنا رہا ہے، مختلف بیانات سے اس کو متنازعہ بنایا گیا۔ وزیراعظم کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ وہ خود نگرانی کرینگے۔

اس منصوبے پر حکومت سمیت ہر ایک اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ میر کبیر نے کہا کہ گوادر میں کھاد اتارنے کیلئے مزدور بھی باہر سے آ رہے ہیں، اقتصادی راہداری منصوبے سے اس علاقہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہونا چاہئے۔ عثمان خان کاکڑ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کل جماعتی کانفرنس میں آنے والی قیادت کا ہم احترام کرتے ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے بداعتمادی دور کی جائے۔

ر اہداری کے روٹ کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے، ہم اس منصوبے کے قطعاً خلاف نہیں ہیں۔ سسی پلیجو نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جانا چاہئے تھا یہ منصوبہ پاکستان کیلئے سود مند ہونا چاہئے، ہم کسی منصوبے کو سہولیات دینے کے مخالف نہیں ہیں۔ ہم اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے تمام صوبوں کو اس منصوبے پر اعتماد میں لیا جائے۔

اعظم سواتی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کا مستقبل ہے ملک بچانے کی بات کی جائے، عالمی میڈیا اس منصوبے کو گیم چینجر قرار دے رہا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ 15 جنوری کا فیصلہ خوش آئند ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ وزیراعظم خود اس کی نگرانی کریں، سی پیک کے متعلق انرجی کے منصوبوں کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔

تھر کے کوئلہ کو لانے کیلئے ریلوے لائن بچھائی جائے۔ اس حوالے سے سعد رفیق کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے خود رابطہ کیا۔ مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ کو بھارت کبھی پسند نہیں کرتا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کیا جائے۔ وزیراعظم اس ایوان میں آ کر اعتماد میں لیں تو زیادہ بہتری ہو سکتی ہے۔

سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ و زیراعظم کے اعلان پر من و عن عمل کیا جائے۔ سعید الحسن مندوخیل نے کہاکہ ہمارے دشمن تھوڑے ہیں کہ ہم بھی اس منصوبے کو متنازعہ بنائیں۔ وزیراعظم اس منصوبے کو اپنے ہاتھ میں لیں، سی پیک کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ چین کیلئے یہ منصوبہ منافع بخش ہے وہ اس منصوبے کو ضرور مکمل کرے گا۔ کچھ لوگ پیرول پر ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہو۔

سینٹیر داؤد خان نے کہا کہ مغربی روٹ کو اولین ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حافظ حمد اللہ نے کہاکہ اس منصوبے کو متنازعہ بنانے یا اس منصوبے کی مخالفت پاکستان کی مخالفت پر سب کو اتفاق ہے اور پاکستان کے معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔ یہ منصوبہ کسی جماعت، حکومت کا نہیں پورے پاکستان کا ہے۔ اس منصوبے پر دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لیا جائے۔

ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اے پی سی میں جانے والی جماعتوں کے قائدین کی دوسری صف کی لیڈر شپ کو اپنی قیادت پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ہماری توقع ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں ہے، ہمارے تحفظات ساحل اور وسائل اور ڈیمو گرافک تبدیلی کے خدشات ہیں۔ توقع ہے کہ وزیراعظم کی سربراہی میں قائم سٹیئرنگ کمیٹی ان تحفظات کو دور کرے گی۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ میگا پراجیکٹ ہے۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ ایسا نہیں کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے مکمل ہو جائے گا، یہ طویل اندھیروں کے بعد روشنی کی ایک کرن ہے، یہ منصوبہ 2030ء تک چلے گا۔ بلوچستان کے لوگوں کی ڈیمو گرافک تبدیلی کی بات میں وزن ہے، اقتصادی راہداری منصوبے نے قوم کو جوڑ دیا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک پوری قوم کو ایک جگہ کھڑا کر دیا ہے۔

عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ اس منصوبے سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آ رہی ہے اس منصوبے پر کئی کمیٹیاں کام کر رہی ہیں، اس منصوبے کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز کمیٹی اجلاس میں دو وزارتوں کے سیکرٹریوں نے ہر ایک سوال کا جواب دیا۔ اس کا یہاں ذکر کرنا چاہئے تھا، ہم اتفاق رائے کو خراب کر دیتے ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پلاننگ کمیشن کو اس منصوبے سے کچھ عرصہ کیلئے دور رکھا جائے، آئینی اداروں کا استعمال کیا جائے۔ اس منصوبے میں گلگت بلتستان کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :