ایران میں انقلاب کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، یمن میں فوج نہ بھیجنے کے فیصلے سے ہماری قدر ایران کی نظروں میں بڑھی ہے، پاکستان سعودی عرب اور ایران میں رابطے کا کردار ادا کرے

سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کی نجی ٹی وی سے گفتگو

پیر 18 جنوری 2016 22:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 جنوری۔2016ء) تحریک انصاف کے رہنما اورسابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا ہے کہ ایران میں انقلاب کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، یمن میں فوج نہ بھیجنے کے فیصلے سے ہماری قدر ایران کی نظروں میں بڑھی ہے، پاکستان سعودی عرب اور ایران میں رابطے کا کردار ادا کرے۔ وہ پیر کو نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں انقلاب کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، پاکستان نے یمن جنگ میں حصہ نہ بننے یک قیمت ادا کی ہے، پاکستان دنیا میں انڈونیشیاء کے بعد دوسرا بڑا سنی ملک ہے اور ایران کے بعد دوسرا بڑا شیعہ ملک ہے، اس لئے ایران اور سعودی عرب کی جنگ کے اثرات پاکستان پر بہت گہرے ہوں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ د شمن میں فوج نہ بھیجنے کی وجہ سے ہماری قدر ایران کی نظروں میں بڑھ گئی ہے، پاکستان کا سعودی عرب اور ایران میں رابطے کا کردار ادا کرنا ایک اچھا عمل ہے۔

خورشید قصوری نے کہا کہ ہمارے دور میں امریکہ بھارت سے سول نیو کلیئر ڈیل کر رہا تھا اور پاکستان بھی امریکہ سے اسی قسم کا معاہدہ چاہتاتھا مگر امریکہ میں جیوش لابی نے ہماری مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ 2006ء میں اردن کے شاہ حسین اچانک اسلام آباد آئے، ایئرپورٹ پر ان کا میں نے استقبال کیا۔ شاہ حسین ایئرپورٹ سے سیدھے ایوان صدر چلے گئے، پتا چلا اردن کے شاہ حسین، صدر بش اور سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ کا پیغام لائے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل میں صلح کروائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیغام ایسے وقت میں آیا کہ جب فلسطین کی 2جماعتیں جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا، اس سے ایران ناراض ہو گا، اردن کے شاہ حسین کے دورے کا سارا مقصد یہ تھا کہ ایران کو مشرق وسطی کے معاملات سے باہر رکھا جائے۔ خورشید قصوری نے کہاکہ یہ وہ وقت تھا جب ایران کو برائی جڑ اور پوری اسلامی دنیا میں گڑ بڑ کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے