وزیر اعظم نے پاک چین اقتصادی راہداری بارے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ابہام ختم کر دیئے ، یہ اچھی پیش رفت ہے ، سینیٹ کمیٹی کے تحفظات کو بھی وزیر اعظم حل کر سکتے ہیں ، ان کے اعلانات سے تمام تصادم کی کیفیات ختم ہو چکی ہیں،بجلی ،ریلوے،فائبر آپٹک کیبل کے معاملات کہاں تک ہیں اور یہ کمیٹی کس طرح ان چیزوں کو مانیٹر کریگی، وزیر اعظم کے اعلانات پر عمل درآمد کے حوالے سے معاملات پر بات کرینگے

کمیٹی نے کراچی ،لاہور منصوبے کے ٹینڈر کے حوالے سے رپورٹس کو خطرناک قرار دیدیا،آئندہ اجلاس میں رپورٹ طلب

پیر 18 جنوری 2016 20:59

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 جنوری۔2016ء ) سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے پاک چین اقتصادی راہداری کے کنویئر سینیٹرتاج حیدر نے کہاہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر بہت سے ابہام ختم کر دیئے ، یہ منصوبے کے حوالے سے ایک اچھی پیش رفت ہے ، سینیٹ کمیٹی نے 13اگست کو وزیر اعظم کا ایک خط بھی لکھا تھا کچھ معاملات پر تحفظات ہیں جن کو وزیر اعظم ہی حل کر سکتے ہیں ،وزیر اعظم کے اعلانات سے وہ تمام تصادم کی کیفیات ختم ہو چکی ہیں اور کمیٹی کے موجودہ اجلاس سے وزیر اعظم کے اعلانات پر عمل درآمد کے حوالے سے معاملات پر بات کی جائے گی ،بجلی ،ریلوے،فائبر آپٹک کیبل کے معاملات کہاں تک ہیں اور یہ کمیٹی کس طرح ان چیزوں کو مانیٹر کریگی جبکہ کمیٹی نے کراچی ،لاہور منصوبے کے ٹینڈر کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی رپورٹس کو خطرناک قرار دیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں رپورٹ طلب کر لی ۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ کی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کا اجلاس کنوینر کمیٹی سینیٹرتاج حیدر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ کنوینر کمیٹی سینیٹرتاج حیدرنے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان نے آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس بلا کر بہت سے ابہام ختم کر دیئے ۔ یہ منصوبے کے حوالے سے ایک اچھی پیش رفت ہے اور سینیٹ کی اس کمیٹی نے 13اگست کو وزیر اعظم کا ایک خط بھی لکھا تھا کچھ معاملات پر تحفظات ہیں جن کو وزیر اعظم ہی حل کر سکتے ہیں ۔

وزیر اعظم کے اعلانات سے وہ تمام تصادم کی کیفیات ختم ہو چکی ہیں اور کمیٹی کے موجودہ اجلاس سے وزیر اعظم کے اعلانات پر عمل درآمد کے حوالے سے معاملات پر بات کی جائے گی ۔بجلی ،ریلوے،فائبر آپٹک کیبل کے معاملات کہاں تک ہیں اور یہ کمیٹی کس طرح ان چیزوں کو مانیٹر کریگی۔چیزوں کو طے کیا جائے گا لوگوں کو ڈیمو گرافک تبدیلیوں کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں۔

وزیر اعظم کے اعلان کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے نقشے پر کیا ہے اصل منصوبے میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں ۔2015-16کے بجٹ میں کیا کچھ مختص کیا گیا ہے حقائق عوام کو معلوم ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کے ابہام ختم ہو سکیں۔سیکرٹری پلاننگ ڈویپلمنٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ سی پیک ایک بہت بڑے منصوبے کا نام ہے جس کے بہت سے حصے ہیں اور یہ منصوبہ مرحلہ وار مکمل ہو گا۔

مغربی روٹ کے حوالے سے ا نہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے واضح ہدایا ت دی ہیں کہ جولائی2018تک روٹ مکمل کر لیا جائے۔صنعتی منصوبہ جات کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا صوبوں کے ساتھ اس حوالے سے ایک کمیٹی بنا کر مشاور ت کی جا رہی ہے۔صنعتی منصوبے صوبائی حکومتوں کی مشاور ت سے بنیں گے۔چین کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں جس میں صوبائی حکومتوں کو بھی نمائندگی دی جاتی ہے ۔

جس پر کنوینر کمیٹی سینیٹرتاج حیدر نے کہا کہ مغربی روٹ کے نقشہ جات،اور منصوبہ جات کی تفصیل ،ٹائم ٹیبل ،مختص بجٹ بارے تحریری طور پر آگاہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر سوالات متعلقہ اداروں کو بھجوائے جائیں گے اور ان سے تحریری جواب طلب کئے جائیں گے۔سینیٹر عثمان سیف اﷲ خان نے کہا کہ حسن ابدال سے پشاور تک موٹر وے موجود ہے اور پشاور سے ڈی آئی خان تکN-55موجود ہے۔

نئی زمین یا نئی سڑک سے بہتر ہے کہ ا س کو سی پیک کا حصہ بنا دیا جائے اور جو روٹ حسن ابدال سے ڈی آئی خان تک بتا یا جا رہا ہے اس سے خیبر پختونخوا بائی پاس ہو جاتاہے۔مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں یہ ہمارے صوبے کے ساتھ زیادتی ہو گی۔چیئرمین این ایچ اے نے کہا کہ پاک چائنہ معاہدے میں ملٹی اقتصادی راہداری کی نشاندہی کی گئی ہے۔مغربی روٹ سے انکار نہیں ہے اور اے پی سی کے اجلاس میں حسن ابدال اور ڈی آئی خان کی الائنمنٹ طے کر لی گئی تھی۔

سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے کہا کہ صرف کمیٹیاں بنانے سے کام نہیں چلتا کس کس روٹ کا فتتاح ہو چکا ہے بتایا جائے اور مشرقی روٹ پر کتنا کام ہو چکا ہے وہ بھی بتایا جائے۔کمیٹی کے اجلاس میں دو ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی اور مسٹر سعیدعالم سے بھی پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے حوالے سے بریفنگ حاصل کی گئی۔ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ جس طرح منگلا اور تربیلا ڈیم سے ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے اسی طرح اس منصوبے سے بھی ملک کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔

سی پیک 2005میں شروع ہوا2006میں جنرل (ر)مشرف کو بریفنگ دی گئی تھی منصوبہ کم سے کم روٹ اور ذیادہ سے ذیادہ صنعتی اور زرعی علاقوں کو کور کرنے سے فائد مند ثابت ہو سکتا ہے۔پسماندہ علاقوں کو ترقی بھی مل سکتی ہے۔مشرقی روٹ پر آبادی بہت ذیادہ ہے انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کی پہلے تعریف واضح کی جائے ہر منصوبے کو سی پیک کا حصہ نہ سمجھا جائے۔سی پیک وہ منصوبہ ہے جو سی پیک بیلٹ پر موجود ہے ۔

لنک روٹس کے ذریعے اس کو ملانے سے بہت فائدہ ہو گا خواندگی میں بہتری لانی ہو گی ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے شہروں کو ڈویلپ کرنا ہو گا ۔موجودہ سڑکوں کو بہتر حال میں بنانا ہوگا اور صنعتی زون بناتے وقت ٹیکنیکل چیزوں کا خیال رکھنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ صرف چین استعمال نہیں کریگا بلکہ وہ ممالک بھی استعمال کرینگے جو چین کے ساتھ تجارت کرینگے۔

پورٹ کی آمدنی کون رکھے گا۔اور پاکستان کو روٹ میں تبدیل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے تھا ہائی وے پر 24ویلر ٹرک چلیں گے کیا یہ سڑکیں برداشت کر سکیں گی۔انہوں نے تجویز دی کہ پاک چائنہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے ریلوے کو پرائیوٹ طور پر استعمال میں لایا جائے۔ماحولیاتی آلودگی کو بچانے کے لئے بھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور سی پیک کے منصوبہ جات پارلیمنٹ میں پیش کئے جائیں تاکہ تمام چیزیں عوام کے سامنے ہوں۔

اگر فزیبلٹی سٹڈی کرائی گئی ہے تو وہ عوام کے سامنے لائی جائے مجھے آدھی معلومات چین سے حاصل کرنا پڑی ہیں۔ڈاکٹر سعید عالم نے کہا کہ بجلی کے جو منصوبے ہیں کے پی کے اور بلوچستان کی ٹرانشمیشن لائنیں بجلی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گی۔ انہوں نے کہا حکومت کو چاہئے کہ تمام چیزیں ویب سائٹ پر ڈال دیں تاکہ عوام مستفید ہو سکیں۔اراکین کمیٹی نے کراچی ،لاہور منصوبے کے ٹینڈر کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی رپورٹس کو خطرناک قرار دیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں رپورٹ طلب کر لی۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے ابہام ختم کرنے کیلئے ایک کوشش کی ہے اب حکومت کو چاہئے کہ وزیر اعظم کی اس کاوش کو کامیاب کرائے۔اور معلومات عوام تک پہنچائیں۔ سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ جو ملازمتوں کا وعدہ کیا گیا تھاا نہیں پورا کیا جائے منصوبے کا سب سے پہلے فائدہ گوادر اور پھر مکران اور پھر پورے پاکستان کو دینا چاہئے۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز عاشہ رضا فاروق،چوہدری تنویر خان ،نہال ہاشمی،کامل علی آغا،میاں محمد عتیق شیخ،میر کبیر احمد محمد شاہی،ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،ہدایت اﷲ ،عثمان سیف اﷲ خان ،سعید الحسن مندو خیل ،فرحت اﷲ بابر اور داؤد خان اچکزئی کے علاوہ سیکرٹری پلاننگ ،سیکرٹری مواصلات کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی