امریکی خاتون کا ٹوئٹر کیخلاف دہشتگردوں کی مدد کر نے کا مقدمہ

ہفتہ 16 جنوری 2016 14:45

کیلیفورینا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔16 جنوری۔2016ء ) اردن میں ہلاک ہونے والے ایک امریکی شہری کی بیوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نام نہاد دولت اسلامیہ کو اپنے نظریات پھیلانے کی سہولت مہیا کرنے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا، اس مقدمے کے سبب شدت پسندی سے متعلق آن لائن پروپیگنڈا کے خلاف کارروائی کے لیے دباوٴ میں مزید اضافہ ہوگا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست فلوریڈا کی رہائشی تمارا فیلڈز کے خاوند لائڈ گذشتہ سال نومبر میں اردن کے شہر عمان میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ تمارا فیلڈز کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر اپنا نیٹ ورک دانستہ طور پر شدت پسند گروہ کو اپنے پروپیگنڈے، پیسے جمع کرنے اور نئی بھرتیوں کے لیے استعمال کرنے دیتا ہے۔

(جاری ہے)

شدت پسندی کے مقدمات میں مہارت رکھنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مقدمے سے ٹوئٹر اور فیس بک جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں پر شدت پسند گروہوں کی پوسٹیں ہٹانے پر دباوٴ میں اضافہ ہوگا تاہم فیلڈز کو اس کے لیے ایک مشکل لڑائی کاسامنا ہے۔ بدھ کے روز دائر کی جانے والی اپنی شکایت میں فیلڈز کا کہنا تھا کہ سان فرانسسکو کی کمپنی ٹوئٹر نے اب سے کچھ عرصے قبل تک نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس) کو بلا روک ٹوک ٹوئٹر پر اپنے باقاعدہ اکاوٴنٹس چلانے کی سہولت مہیا کی ہوئی تھی۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر آکلینڈ کی عدالت میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر کے بغیر سب سے زیادہ دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس گذشتہ چند سالوں میں دنیا بھر میں خطرناک حد تک تیز رفتاری سے نہیں پھیل سکتا تھا۔ فیلڈز کے مطابق ٹوئٹر شدت پسندوں کی مدد کر کے انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اس لیے وہ انھیں ہرجانہ ادا کرے۔

ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ کی کمپنی پر اس قانون کی پامالی کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس مقدمے کے حوالے سے جاری کیے جانے والے اپنے بیان میں ٹوئٹر کا کہنا ہے، جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بے بنیاد مقدمہ ہے وہیں اس خاندان کو پہنچنے والی تکلیف پر ہمیں دلی صدمہ ہے۔

ٹوئٹر پر پرتشدد دھمکیوں اور شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں کی طرح اس بارے میں ہمارے اصول واضح ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک دی بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ایک اندازے کے مطابق سنہ 2014 کے ستمبر اور دسمبر کے مہینوں کے درمیان نام نہاد دولت اسلامیہ کے حامیوں کے کم از کم 46 ہزار ٹوئٹر اکاوٴنٹ کام کر رہے تھے۔ آن لائن ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر نے سنہ 2015 کے جنوری اور جون کے مہینوں کے دوران امریکی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پوسٹیں ہٹانے کے لیے کی جانے والی 25 درخواستوں میں سے کسی کی بھی پاسداری نہیں کی۔

متعلقہ عنوان :