سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کا پی آئی اے پروازوں کی تاخیر کا سخت نوٹس، صورتحال کی بہتری کیلئے اقدامات پر زور

صوبوں کے حق کی آواز بلند کرتے رہیں گے‘سینیٹر سسی پلیجو

جمعرات 14 جنوری 2016 22:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 جنوری۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے نے ڈیلی ویجز پر بھرتی کیے گئے لیکچرز اور دیگر اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے مسئلے پر شدید تشویش کو اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنخواہوں کو مسئلہ فوراًحل کیا جائے اور ان کی ریگولرائزیشن کیلئے مناسب اقدامات کیے جائیں، تیل و گیس سے متعلق پالیسی سازی میں صوبوں کو مناسب نمائندگی دی جائے ، کمیٹی چیئرمین اور دیگر اراکین نے پی آئی اے پروازوں کی تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری سول ایوی ایشن اور متعلقہ اداروں کو ہدایات دیں کہ بلاوجہ تاخیر اور پروازوں کی منسوخی کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور پی آئی اے کو چاہیے کہ اس روش کو ختم کرے اورپیشہ وارانہ انداز میں ادارے کو چلایا جائے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے سینیٹر حمزہ کی جانب سے کراچی سے لاہور آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 302 کی دو گھنٹے تاخیر کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہا ر کرتے ہوئے پی آئی اے کو ہدایات دیں کہ اس مسئلے کی پوری تحقیقات کی جائیں ،کمیٹی نے سول سرونٹس ترمیمی بل 2015 پر بھی تفصیلی غور کیا۔ جمعرات کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس کمیٹی چیئرمین سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔

کمیٹی اجلاس میں پی آئی اے کے طیاروں کی معمول کی مرمت ، پروازوں میں تاخیر ، سینیٹر سسی پلیجو کی جانب سے پیش کیے گئے آئل و گیس ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل 2015 ، ڈیلی ویجز کی بنیادں پر بھرتی کیے گئے لیکچرز اور اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے مسائل اور دیگر اہم امور زیر غور آئے ۔ کمیٹی نے آئل و گیس ترمیمی بل 2015 پر تفصیلی بحث کی ۔سینیٹر سسی پلیجو نے یہ بل پیش کیا تھا۔

انہوں نے بل پر اپنا موقف پیش کیا۔کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا کہ ریگولیٹراتھارٹیز میں صوبوں کی نمائندگی اہم ہے ۔سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ تیل و گیس سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں صوبوں کی آواز کا ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ اگر ارسا ، نیپرا وغیرہ میں صوبوں کی نمائندگی ہو سکتی ہے تو اوگرا میں کیوں نہیں انہوں نے کہا کہ یہ صوبوں کی نمائندگی کی بات ہے اور اس اہم فورم میں صوبائی نمائندگی ضرور ہونی چاہیے اوریہ کہ فیڈریشن کو مضبوط کرنا ہے تو وسائل میں اور فیصلہ سازی میں سب کو مناسب حصہ دیا جائے اور تمام صوبوں کو آن بورڈ رکھا جائے ۔

انہوں نے اوگرا کے تحریری موقف کو 18 ویں ترمیم کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ وسائل صوبوں سے نکلتے ہیں اور صوبوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں ضرور شامل کرنا چاہیے اور ایسے فورمز پر ان کی نمائندگی ضرور ہونی چاہیے ۔سینیٹر کلثوم پروین اور سینیٹر نوابزادہ سیف اﷲ مگسی نے سینیٹر سسی پلیجو کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ پالیسی سازی میں صوبوں کو مناسب نمائندگی دی جائے ۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد طلحہ محمود نے بل کے اوپر تمام اراکین سے رائے لی اور فیصلہ کیا کہ اس سلسلے میں وزارت قانون سے بھی رائے لی جائے گی کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس پر مناسب رائے لینے کے بعد ہی کمیٹی کوئی حتمی فیصلہ کرے گی ۔کمیٹی کے چیئرمین اور دیگر اراکین نے پی آئی اے پروازوں کی تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری سول ایوی ایشن اور متعلقہ اداروں کو ہدایات دیں کہ بلاوجہ تاخیر اور پروازوں کی منسوخی کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور پی آئی اے کو چاہیے کہ اس روش کو ختم کرے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پیشہ وارانہ انداز میں ادارے کو چلایا جائے ۔کمیٹی نے سینیٹر حمزہ کی جانب سے کراچی سے لاہور آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 302 کی دو گھنٹے تاخیر کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہا ر کرتے ہوئے پی آئی اے کو ہدایات دیں کہ اس مسئلے کی پوری تحقیقات کی جائیں ۔پی آئی اے نے اپنے تحریری جواب میں یہ بات کہی ہے کہ پرواز میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ۔

سینیٹر کامل علی آغا نے بھی پی آئی اے کی پروازوں کی تاخیر پر ناپسندیدگی کا اظہا رکیا اور کہا کہ تاخیر ایک معمول بن گئی ہے ۔اور یہ رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس تحریری جواب کو کمیٹی نے یکسر مسترد کر دیا جبکہ سینیٹر حمزہ نے بھی اس جواب پر انتہائی تعجب کا اظہار کیا اور اسے غیر تسلی بخش قرار دیا ۔کمیٹی نے سی ڈی اے سے کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز پر قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اب تک لگائے گئے جرمانوں کی تفصیلا ت بھی طلب کر لیں ۔

سینیٹر میرمحمد یوسف بادینی نے اجلاس کے دوران سی ڈی اے کے حکام سے سوال کیا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز پر لگائے جرمانوں کی مد میں اکھٹی کی گئی رقم کی تفصیلات کی جائیں تو متعلقہ حکام کے پاس اس حوالے سے تفصیلات نہیں تھیں ۔سینیٹر بادینی نے سی ڈی اے میں اضافی چارج کی بنیاد پر کام کرنے والے افسران کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ادارے کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تجربہ کار اور پڑھے لکھے لوگوں کو تعینات کر کے ادارے کی کاردگی میں بہتری لائی جائے ۔سینیٹر محمد طلحہ محمو د نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے حکام سے موبائل کمپنیوں کی جانب سے نائٹ پیکجز کی تفصیلات لیتے ہوئے کہا کہ ان پیکجز کو جو نام دیئے گئے وہ ہماری ثقافت اور روایات کے خلاف ہیں اور اس سلسلے میں ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی بناء پر معاشرے کوبرے اثرات سے بچایا جا سکے ۔

سینیٹر خوش بخت شجاعت، کلثوم پروین اور دیگر نے بھی اس حوالے سے اپنا موقف دیا اور کہا کہ جو نام ان پیکجز کو دیئے جارہے ہیں وہ معاشرتی قدروں سے مطابقت نہیں رکھتے ۔قائمہ کمیٹی نے ڈیلی ویجز پر بھرتی کیے گئے لیکچرز اور دیگر اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے مسئلے پر شدید تشوش کو اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنخواہوں کو مسئلہ فوراًحل کیا جائے اور ان کی ریگولرائزیشن کیلئے مناسب اقدامات کیے جائیں ۔کمیٹی نے سول سرونٹس ترمیمی بل 2015 پر بھی تفصیلی غور کیا ۔ اجلاس میں سینیٹرز شاہی سید، ہدایت اﷲ ، یوسف بادینی ، خوش بخت شجاعت، کامل علی آغا، نجمہ حمید، کلثوم پروین ، حاجی سیف اﷲ خان بنگش، نوابزادہ سیف اﷲ مگسی ، حمزہ اور سسی پلیجو نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :