ماہرین کاپاکستان میں مستقبل کی ممکنہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ترقیاتی ایجنڈے پر متحد ہو کر کام کرنے پرزور

پانی، خوراک اور توانائی کے تحفظ کے معاملات میں حکمت عملی کی ضرورت ہے،سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن اور دیگر کا ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام ورکشاپ سے خطاب

جمعرات 14 جنوری 2016 19:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 جنوری۔2016ء) پاکستان میں مستقبل کی ممکنہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ترقیاتی ایجنڈے پر متحد ہو کر کام کی ضرورت پر ماہرین میں اتفاق پایا گیا۔ اس سلسلہ میں ماہرین کے ایک اجلاس میں سول سوسائٹی تنظیموں، تھنک ٹینک اور علمی اداروں نیز معاملہ سے متعلق دیگر فریقوں پر مشتمل ایک فورم تشکیل دیا گیا، جس کا نام ’’پاکستان پینل آن کلائمیٹ چینج‘‘ (پی پی سی) رکھا گیا ہے۔

جس کا مقصد سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو سائنسی بنیاد پر تیکنیکی مدد اور معاونت فراہم کرنا ہے۔ یہ پیش رفت سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سنٹر (ایس ڈی سی ) کی قیادت میں تمام متعلقہ فریقوں کے لیے پہلی مشاورتی ورک شاپ کے انعقاد کے ساتھ سامنے آئی۔

(جاری ہے)

یہ مشاورتی ورک شاپ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس ) اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس کا عنوان تھا ’’پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر ایک پینل کا قیام‘‘۔

فورم کے شرکاء کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ماحولیاتی انتظامی معاملات کے لیے سائنس پر مبنی علم کی ضرورت ہے جو سول سوسائٹی، غیرسرکاری تنظیموں اور علمی اداروں کو فراہم کرنی چاہیے تاکہ سماجی، معاشی اور ماحولیاتی امور پر پالیسی، منصوبہ بندی، حکمت عملی اورپروگراموں کی تشکیل میں مدد مل سکے۔ خصوصاً پانی، خوراک اور توانائی کے تحفظ کے معاملات میں اس کی ضرورت ناگزیر ہے۔

سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی اور آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن مرزا حامد حسن نے مشاورتی ورک شاپ کے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے افتتاحی کلمات میں اس خیال کا اظہار کیا کہ موسمی تبدیلیوں کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ہے جب کہ حکومت اور سول سوسائٹی اداروں کا جوابی ردِّعمل بہت سست ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زرعی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے ایسی فصلوں کو فروغ دیا جائے جو درجہ حرارت میں تبدیلی یا پانی کی قلت کا بہتر مقابلہ کر سکتی ہوں۔

پاکستان کے ایک ماہر ماحولیات ملک امین اسلم نے اپنے کلیدی خطاب میں ایک ایسے فورم کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی جو اعلیٰ سطح پر اور ہمہ جہتی طور پر ان ماحولیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے جو پاکستان اور جنوبی خطے کو درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا آسان شکار ہے، کیونکہ پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات میں سے 90 فی صد ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آتی ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آگے بڑھ کر ایسی ترقیاتی حکمتِ عملیاں وضع کرنی چاہییں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو برداشت کر سکیں اور ترقی کا تسلسل باقی رہے۔ جن دیگر ماہرین نے اس فورم میں خطاب کیا ان میں منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر طاہر حجازی؛ فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ظفر بختاوری؛ اور اسی فیڈریشن میں ماحولیاتی کمیٹی کے چیئرمین گلزار فیروز؛ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر عرفان خان؛ ایس ڈی سی کے سینئر ریسرچ فیلو کنور ایم جاوید اقبال؛ پاک ای پی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل آصف شجاع خان؛ قومی سطح پر آئی یو سی این کے سابق مندوب عبداللطیف راؤ اور این ڈی ایف کے کنور محمد دلشاد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ اس مشاورتی ورک شاپ میں تشکیل دیے گئے فورم پی پی سی سی (پاکستان پینل آف کلائمیٹ چینج) کا قیام وقت کی ضرورت تھی تاکہ یہ فورم ان تمام معاملات کو سائنسی، اخلاقی اور پیشہ ورانہ پہلوؤں سے اچھی طرح دیکھ سکے جوماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :