چیئرمین سینیٹ کی زیر صدارت فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے تشکیل دی گئی ایوان کی کمیٹی کا اجلاس

وقت آ گیا دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے فاٹا کو ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے، اراکین سینیٹ جرگہ سسٹم میں ممبران کی تقرری پولیٹیکل ایجنٹ کی بجائے پارٹیز خود کریں،کریمنل کیسز میں ملزم کو ضمانت کا حق حاصل ہو،سزائیں پاکستان پینل کورٹ کے مطابق مقرر کی جائیں،گرفتار آدمی کو 24گھنٹوں کے ا ندر پیش کیا جائے،ملزم کے لواحقین کو مفرور پیش کرنے کا پابند کیا جائے،خواتین ،بچوں کو گرفتار نہ کیا جائے ،گھروں کو نہ گرایا جائے، آئین کی دفعہ 247کی شقوں کو ختم کیا جائے جن کے مطابق فاٹا میں پارلیمنٹ ،عدلیہ کا کوئی کردار نہیں ہے،سپریم کورٹ ، ہائیکورٹ کو فاٹا تک توسیع دی جائے ، لوگوں کو بنیادی سہولیات اور روزگار فراہم کیا جائے، جسٹس (ر)میاں اجمل کی ہول کمیٹی کو بریفنگ

منگل 12 جنوری 2016 21:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 جنوری۔2016ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی طرف سے فاٹا میں انتظامی ، قانونی اور آئینی اصلاحات کے ذریعے فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے تشکیل دی گئی پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹ ہال میں منعقد ہوا جس میں ماہرین پر مشتمل پینل جسٹس ریٹائرڈ اجمل میاں و سابق وفاقی سیکرٹری حبیب اﷲ خان نے بھی اجلاس کو اپنی تجاویز سے آگاہ کیا۔

ممبران سینیٹ نے اظہار خیا ل کرتے ہوئے فاٹا کے شہریوں کو آئین کے تحت اختیا رات دینے کے حوالے سے کہا گیا کہ فاٹا کے عوام کا احساس محرومی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ اور اس سلسلے میں وقت آ گیا ہے کہ دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے فاٹا کو ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

جسٹس ریٹائرڈ اجمل میاں نے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کو بتایا کہ فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے 2005میں آٹھ ممبران پر مشتمل ا یک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے سفارشات مرتب کیں 2011میں ان سفارشا ت کی منظوری لی گئی۔

85فیصد سفارشات پر عمل درآمد ہوا تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ فاٹا کے عوام اپنی روایات اور رسم رواج کو ہر حال میں برقرا رکھتے ہیں ۔ہماری کمیٹی نے قبائلی علاقوں کا دورہ کیا اور بلا تفریق فاٹا کی عوام سے رائے حاصل کی اور اس حوالے سے مختلف آراء سامنے آئیں ۔انہوں نے کہا کہ مشران کے مطابق ایف سی آر کو ہاتھ نہ لگا یا جائے اور وہ اپنی روایات کے مطابق ہی زندگی بسر کرناچاہتے ہیں ۔

درمیانی عمر کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے وہ ایف سی آرمیں بنیادی حقوق چاہتے ہیں ۔وہ بنیادی حقوق کے منافی شقوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نوجوان نسل ایف سی آر کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے اور چوتھا علماء حضرات شریعت چاہتے ہیں مگر خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے خلاف ہیں ۔ انہوں نے 2005میں بنائی جانیوالی کمیٹی کی سفارشات بارے کمیٹی کو آگاہ کیا ۔

اورکہا کہ جرگہ سسٹم میں ممبران کی تقرری پولیٹیکل ایجنٹ کی بجائے پارٹیز خود کریں ۔کریمنل کیسز میں ملزم کو ضمانت کا حق حاصل ہو ۔سزائیں پاکستان پینل کورٹ کے مطابق مقرر کی جائیں۔گرفتار آدمی کو 24گھنٹوں کے ا ندر پیش کیا جائے۔ملزم کے لواحقین کو مفرور پیش کرنے کا پابند کیا جائے۔خواتین او ربچوں کو گرفتار نہ کیا جائے اور گھروں کو نہ گرایا جائے۔

آئین کی دفعہ 247کی شقوں کو ختم کیا جائے جن کے مطابق فاٹا میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے آئین کے آرٹیکل 247 کو جابرانہ قرار دیا ۔جسٹس (ر)اجمل میاں نے کہا کہ فاٹا تک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو توسیع دی جائے ۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بنیادی سہولیات فرا ہم کی جائیں ،بے روزگاری اور غربت انتہا تک پہنچ چکی ہے اور وہاں کے لوگ حب الوطن ہیں پاکستان کے لئے مخلص ہیں روزگار فراہم کیا جائے اور ان کی قابلیت کو ملک کی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے۔

انہوں نے اراکین کمیٹی کے سوالات کے تفصیلی جوابات بھی دیئے۔ سینیٹ میں فاٹا پارلیمانی پارٹی کے لیڈر سینیٹر ہدایت اﷲ نے کہا کہ بغیرہوم ورک کے کسی نظام کو ماننے پر تیار نہیں۔2011کی اصلاحات پر عمل ہو جاتا تو بہتر تھااور کہا کہ فاٹا کے عوام پولیٹیکل ایجنٹ کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں رائے کا ظہار کرنا مشکل ہے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی اور بحالی کیلئے ہنگامی بنیاد پر بڑا پیکج دیا جانا چاہئے۔

فاٹا کے عوام کی رائے کے بغیر کوئی نظام قابل قبول نہیں ہو گا ۔سابق سیکرٹری سیفران حبیب اﷲ خان نے کہا کہ فاٹا میں بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ایف سی آرٹربیونل قائم کیے جائیں جو مجرم کا ریکارڈ طلب کر سکے جیل کا معائنہ کر سکے ا ور سرکاری مداخلت کا اختیار رکھتا ہو ۔فاٹا کو جس طرح غیر مستحکم کیا گیا اسی طرح افغانستان کے سرحدی علاقہ کو بھی غیر مستحکم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اتنظامی ڈھانچہ کی کمی کی وجہ سے سفارشات پر عملد رآمد نہیں ہو سکا۔ سسٹم اور منیجمنٹ میں فرق واضح کیا جائے پولیٹکل ایجنٹ کے اختیارات ایک دفتر میں ہیں ان کو تقسیم کیا جائے۔رسم و رواج کو کوڈیفائیڈ کیا جائے اور جلد سے جلد بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔ خیبر پختون خواہ میں بغیر ہوم ورک فاٹا کو شامل کیا گیا تو مشکلات پیش آئینگی۔

ایف سی آر میں بنیادی تبدیلیوں پر عمل کیا جائے تو لاوا کوٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔انتظامی،ترقیاتی او رقانونی اختیارات تقسیم کئے جانے چاہیں اور کہا کہ فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ بہت زیادہ طاقت ور ہیں آئی ڈی پیز اور مقامی معیشت کی بحالی بڑا مسئلہ ہے ۔ہسپتال موجود ہیں تو ڈاکٹر نہیں، سکول ہیں تو استاد نہیں وفاقی اداروں میں نما ئندگی صفر ہے۔

او پی ایف اور فوجی فاؤنڈیشن کا ایک پرائمری سکو ل تک فاٹا میں موجود نہیں۔سونے،تیل و گیس ،قدرتی دھاتوں کے بہت بڑے ذخائر موجودہیں تجارتی راہداری تک پہنچ دی جانی چاہئے۔روڈ میپ پر عمل درآمد پر وقت کا تعین بھی ضروری ہے ۔سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا کہ فاٹا کی قسمت کا فیصلہ فاٹا کے عوام کرینگے اور ہم کوئی فیصلہ ان پر مسلط نہیں کرنا چاہتے یہ اچھی بات ہے کہ 2013کے انتخابات میں خواتین نے بھی ووٹ ڈالے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ دنیا میں دو علاقے ایسے ہیں جہاں سزا کے طور پر گھر مسمار کیے جاتے ہیں ایک فاٹا اور دوسرا مقبوضہ فلسطین ۔سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ عوام کے فیصلے عوام کی مرضی سے کیے جائیں ۔سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ بڑے فیصلے عوام کی رائے کے مطابق کیے جائیں اور انہوں نے ریفرنڈم کو حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی ریفرنڈم ہوئے لیکن اس کے تاثرات عوام میں اچھے نہیں پائے جاتے ۔

سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ سخت فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے اور فاٹا کی عوام کے فیصلے تسلیم کیے جائیں ۔سینیٹر لیفٹینٹ جنرل (ر)عبدالقیوم نے فاٹا کی جغرافیائی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے فاٹا کی ایجنسیوں کو دو یونٹس میں تقسیم کے حوالے سے ماہرین کی رائے طلب کی ۔سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ فاٹا میں قیام امن کیلئے تو فوج بجھوائی جا سکتی ہے تو معاملات کی بہتری کیلئے ضروری اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاسکتے۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے امتیازی فرق نہ رکھا جائے ۔سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر نے کہا کہ فاٹا کے مسئلے کو کشمیر کے ماڈل کے طور پر لیا جائے۔سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ فاٹا کو صوبے کا حصہ بنا کر علیحدہ ضلع بنایا جائے اور سسٹم کی خرابی کو دور کیا جائے ۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں پھر عوامی رائے حاصل کی جائے ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ معاشی استحکام کے بغیر کوئی تجویز کامیاب نہیں ہو سکتی ان کیلئے این ایف سی میں بھی کوئی حصہ تجویز نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے اب کوئی تجویز ہے ۔آخر میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اراکین کمیٹی اور ماہرین کے پینل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی اچھی تجاویز سامنے آئی ہیں ۔فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے اراکین کے سوالات کے ماہرین کے پینل نے تفصیلی معلومات فراہم کیں۔