ایران ‘سعودی عرب تنازع بڑی جنگ کی شکل اختیار کرسکتا ہے‘دنیا پر تیسری عالمی جنگ کے سائے لہرارہے ہیں:ماہرین

Umer Jamshaid عمر جمشید منگل 12 جنوری 2016 10:51

ایران ‘سعودی عرب تنازع بڑی جنگ کی شکل اختیار کرسکتا ہے‘دنیا پر تیسری ..

لندن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 12 جنوری۔2015ء) ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران ‘سعودی عرب تنازع بڑی جنگ کی شکل اختیار کرسکتا ہے 2016، اگرچہ تسلیم کیا جانا سوہان انگیز ہے۔ یہ اسلامی دنیا کے دو بڑے اور طاقتور ملکوں کے درمیان تند ترین مخاصمہ ہے۔ امریکہ کی مسلح افواج کے سابق کمانڈر ان چیف انتھونی چارلس زنی کا کہنا ہے کہ اس مناقشے کے بڑھنے سے ایک بھرپورجنگ چھڑ سکتی ہے۔

ایران کے ساتھ سعودی عرب اور خطے کے کئی ملکوں کے سفارتی تعلقات کا ٹوٹنا نہ صرف دو طرفہ تعلقات کی کشیدگی کو بڑھاتا ہے بلکہ خطے کے دوسرے ملکوں جیسے کہ یمن ، عراق اور شام کے مسائل کے حل کو انتہائی دشوار بناتا ہے۔ موجودہ جھگڑے کا ایک منفی اثر مثال کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ بشار اسد کی حکومت اور شام کی حزب اختلاف کے درمیان ہونے والے وہ مذاکرات جو 25 جنوری کو جینیوا میں ہونا طے ہیں نہ ہو سکیں۔

(جاری ہے)

ماہرین بیک آواز کہہ رہے ہیں کہ مجموعی تناظر واضح طور پر ناسازگار ہے اور حالات بہت نازک ان کے درمیان حلات توقع سے کہیں تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔ خطے کے تمام مقامی تصادمات شدید ہو سکتے ہیں۔ اس کے اثرات نہ صرف مشرق وسطٰی کے استحکام پر پڑیں گے بلکہ مہاجرین کے مسئلے پر بھی اس کا اثر ہوگا۔ایشیا میں ایک اور مقام پر کشیدگی میں غیر متوقع طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔

6 جنوری کو شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اون کے یوم پیدائش 8 جنوری سے پیشتر، شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ اس اطلاع کی کہ آیا یہ فی الواقعی ہائیڈروجن بم کا تجربہ تھا، تصدیق ہونا باقی ہے مگر دنیا کے بیشتر ملکوں اور اقوام عالم نے پیانگ یانگ کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ روس کی سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع و سلامتی کے اول نائب سربراہ فرنتس کلتسیوچ نے بیان دیا ہے کہ پیانگ یاگ کی اس سرگرمی نے جزیرہ نما کوریا و دنیا کے حالات کو اور بین الاقوامی سلامتی کے نئے تصور کے وضع کیے جانے کو دشوار بنا دیا ہے۔

جاپان کے وزیراعظم سندزو آبے نے اس تجربے کو جاپان کی سلامتی کے لیے سنجیدہ خطرہ قرار دیا ہے۔ جنوبی کوریا نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو سزا دلانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ چین بھی پریشان ہوا ہے کیونکہ اس کا وہ منصوبہ خراب ہوتا ہے جس کے تحت اس نے کئی سال پہلے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ختم کیے جانے کے لیے مذاکرات پھر سے شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ اس کے بدلے میں شمالی کوریا کو سلامتی کی یقین دہانی کرائے جانے کے ساتھ اسے معاشی مدد بھی فراہم کی جائے۔

ماسکو کے ہائیر سکول آف اکنامکس کے شعبہ برائے عالمی سیاست و عالمی معیشت کے سربراہ اور کونسل برائے خارجہ و دفاعی پالیسیوں کے اعزازی سربراہ سرگئی کاراگانوو کا کہنا ہے کہ کیا دنیا نئی عالمی جنگ کی دہلیز پر کھڑی ہے؟ اگر میں نے دس برسوں تک جوہری ہتھیاروں بارے مطالعہ نہ کیا ہوتا اور یہ نہ جانا ہوتا کہ جوہری ہتھیار رکھنے کے مسائل کیا ہیں تو میں جواب میں ہاں کہہ دیتا 2014 اور 2015 میں لوگوں کو واضح طور پر جنگ چھڑنے کا احساس ہونے لگا ہے۔

لفظ جنگ فضا میں چھایا ہوا ہے۔ ملکوں نے ایک دوسرے پر جارحانہ پالیسیاں رکھنے کے الزامات لگائے ہیں کہ وہ جوہری جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بڑی جنگ ہوگی، ہم یونہی زندگیاں بسر کرتے رہیں گے اگرچہ دنیا مزید پرخطر ہو جائے گی۔ دنیا کو مسلسل جنگ کی ہولناکیوں سے متعلق آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے سے قطع نظر وہ غالبا نہیں ہوگی۔

اگرچہ جھگڑے ہو سکتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے تند واقعات کبھی اتنی تیزی کے ساتھ رونما نہیں ہوئے۔آج دنیا کے بہت سے ملکوں کا عسکری بجٹ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملک بھرپور انداز میں اپنی مسلح افواج کی تعداد بڑھا رہے ہیں اور ان کی فوجی استعداد پہلے ہی بیشتر کی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی دنیا کے ملکوں میں اختلاف نظر بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے ہی حالات پہلی جنگ عظیم سے پہلے بھی دیکھنے میں آئے تھے جس کا عمل انگیز تاریخ دانوں کے مطابق آرچ ڈیوک فرانس فرڈیننڈ کا قتل ٹھہرا تھا۔ تب جنگ کے پہلے چھ ماہ میں مرنے والوں کی تعداد دس لاکھ افراد تک جا پہنچی تھی۔ اب جب جوہری ہتھیار موجود ہیں تو اتنی تعداد میں لوگ چند گھنٹوں میں مر سکتے ہیں۔