قومی اسمبلی میں صدارتی خطاب پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا الگ الگ ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ، پیپلز پارٹی کے ارکان میر منور تالپور کے خلاف نیب کی طرف سے کرپشن کیس سامنے لانے اور ایم کیو ایم کا کراچی میں میئراور ڈپٹی میئرکے انتخابات کے لئے شیڈول جاری نہ کرنے کے خلاف ایوان سے باہر چلے گئے

صدارتی خطاب پر بحث کے دوران غلام سرور ، جاوید اخلاص، عادل کامران اور دیگر کا اظہار خیال ،نواب یوسف تالپور ، ملک ابرار، ریحان ہاشمی اور طارق فضل چوہدری کی نکتہ اعتراض پر گفتگو

پیر 11 جنوری 2016 22:30

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 جنوری۔2016ء ) قومی اسمبلی میں صدارتی خطاب پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا الگ الگ ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ، پیپلز پارٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری کے بہنوئی میر منور تالپور کے خلاف نیب کی طرف سے کرپشن کیس سامنے لانے اور ایم کیو ایم نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد میئراور ڈپٹی میئرکے انتخابات کے لئے شیڈول جاری نہ کرنے اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں کے خلاف واک آؤٹ کیا ، حکومت ایم کیو ایم ارکان کو منا کر واپس ایوان میں لے آئی تاہم پیپلز پارٹی کے ارکان کو منانے کوئی نہ گیا جس پر وہ ایوان سے باہر چلے گئے، صدارتی خطاب پر بحث میں وزیرداخلہ چوہدری نثار پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انہوں نے حلقے میں قتل کے کیسوں میں مطلوب100 غنڈے پال رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ پورے حلقے کو کنٹرول کرتے ہیں ، وزیر مملکت طارق فضل اور رکن اسمبلی ملک ابرار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الزام عائد کرنے والا خود غنڈے پالنے کے لئے مشہور ہے ، ملک میں امن و امان قائم کرنے پر پوری دنیا چوہدری نثار کی ستائش کر رہی ہے ۔

(جاری ہے)

پیر کو صدارتی خطاب پر بحث میں ارکان اسمبلی غلام سرور ، راجہ جاوید اخلاص، عادل کامران نے حصہ لیا جب کہ نواب یوسف تالپور ، ملک ابرار، ریحان ہاشمی اور طارق فضل چوہدری نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کیا۔ غلام سرور نے کہاکہ صدارتی خطاب ایک آئینی ضرورت ہے اس پر بحث چھ ماہ ضائع کرنے کے بعد شروع کی گئی ۔ صدر نے اپنے خطاب میں کوئی رہنمائی نہیں کی بلکہ تمام پالیسیوں کی صرف حمایت کی ، ضرب عضب کا کریڈٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے۔

فاٹا میں 95 فیصد علاقے کلیئر کرائے گئے مگر حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ۔ کراچی آپریشن کے نتیجے میں امن قائم ہوا مگر اس پر بھی اعتراض ہوا ۔ یہ اعتراض پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا اگر نیشنل ایکشن پلان پر بلا تخصیص عمل ہوتا تو یہ تحفظات سامنے نہ آتے ۔ جتنی کرپشن اور انتہا پسندی پنجاب میں ہے وہ پورے ملک میں نہیں ، رینجرز کے معاملے پر سندھ کو اعتراض ہوا تو اس کی نہ سنی گئی ، سارے صوبوں میں کارروائی ہونی چاہیے ۔

کالا باغ ڈیم پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ہے مگر اسے سیاسی طور پر متنازعہ بنایا گیا ۔ سندھور کے پی کے میں قوم پرستوں کو خرید کر ڈیم کے خلاف محاذ بنایا گیا اسی طرح اب اقتصادی راہداری کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس طرح کے منصوبوں کو اتفاق رائے سے بنایا جائے ۔ جی بی ایک متنازعہ علاقہ ہے وہاں کے عوام حقوق مانگ رہے ہیں ۔ کالعدم تنظیمیں نئے ناموں سے کام کررہی ہیں ۔

وزیر داخلہ نے اپنے حلقے میں 100غنڈے پال رکھے ہیں جو 302 میں مطلوب ہیں ۔ قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ صدر کا خطاب ملکی حالات اور حکومتی کارکردگی کا اعتراف تھا صدر کا خطاب مستقبل کے لئے ایک روڈ میپ تھا، موجودہ حکومت نے خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا ہے اور روس کے ساتھ بھی تعلقات کو خوشگوار بنایا ہے ، بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں ، پہلی دفعہ بھارتی حکومت نے پٹھانکوٹ کے واقعہ کے بعد پاکستان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا ۔

گزشتہ حکومت نے پانچ سالوں کے دوران جتنے خرچ کئے وہ 61سال میں نہیں کئے گئے ۔وزیر داخلہ کی کارکردگی سارے ایوان کے سامنے انکی پالیسیوں کی ساری دنیاتعریفیں کی جارہی ہیں ، وزیرداخلہ تمام ماتحت اداروں کو سیاست اور کرپشن سے پاک کردیا ہے ۔ملک ابرار نے کہا کہ وزیرداخلہ کی غیر موجودگی میں ان پر غنڈوں کے حوالے سے الزام لگایا گیا ۔ یہ الزام لگانے والے خود غنڈے پالنے کے لئے مشہور ہے ۔

وہ وزیر داخلہ پر الزام لگا رہے ہیں وزیرداخلہ کے نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے ملک میں امن قائم ہو سکا، کریڈٹ چوہدری نثار کو جاتا ہے ، نواب یوسف پالپور نے کہا کہ نیب نے میر منور تالپور پر جھوٹا کیس بنایا ہے نیب کو کوئی حق نہیں کہ انکی پگڑی اچھالی جائے ، سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ اس ہاؤس کے ارکان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ، اجلاس کی صدارت کرنے والے بشیر ورک نے کہا کہ میر منور تالپور اس ایوان کے متعدد دفعہ رکن رہے ان کے خلاف صرف اخبار میں سرخی لگا کر کرپشن کا الزام لگانا درست نہیں اگر کوئی کیس ہے تو الزامات سامنے لائے جائیں ۔

نواب یوسف تالپور نے کہا کہ سندھ حکومت والوں کو سزاد ی جا رہی ہے ، پانی کے معاملے میں بھی سندھ کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے ارسا میں فیڈرل ممبر سندھ سے تھا وہ بھی واپس لیا گیا ، قابل افسوس ہے کہ حکومت کی فرنٹ رو خالی ہے۔یوسف رضا گیلانی روز اجلاس میں آتے تھے اب وزیر بھی نہیں آتے ۔ اس کے ساتھ ہی پی پی پی کے تمام ارکان میر منورتالپور کے خلاف نیب کی مبینہ انتقامی کاروائی کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کر گئے ۔

جے یو آئی کی عالیہ کامران نے کہا کہ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کوئی خامی نظر نہیں آئی، حالانکہ اس ایوان میں پارلیمنٹ کے باوجود آرڈیننس جاری کئے جا رہے ہیں ، اقتصادی راہداری پر بلوچستان کے شدید تحفظات ہیں ، صدر کو متنازعہ ایشوز پر باتی کرنی چاہیئے تھی ، وزیر مملکت طارق فضل چوہدری نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے خوامخواہ تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ، تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہئے ، سی پیک ایک سکیم چیلجز ہے یہ ایک انقلابی منصوبہ اور تاریخی سرمایہ کاری ہے ، اپوزیشن اگر متنازعہ بنانا چاہتی ہے تو یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔

مشرقی اور مغربی روٹ دونوں اس ملک کے ہیں ، اپوزیشن صوبائیت نہ پھیلائے ، ملک کی ترقی کے منصوبوں کو متنازعہ نہ بنایا جائے ۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت امن و امان قائم ہوا مگر اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ہم نے کبھی اکیلے کریڈٹ نہیں لیا یہ اہم منصوبہ اتفاق رائے سے حل کیا جائے ۔سی پیک پر وزیراعظم تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے چکے ہیں ۔