قومی اسمبلی میں صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب پر بحث جاری

پی ٹی آئی کے غلام سرور کے وزیرداخلہ پر مختلف قسم کے الزامات،پنجاب میں بھی آپریشن کا مطالبہ ایم کیوایم کا کراچی کے دس لاکھ لوگوں کو غیرقانونی کہے جانے کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ

پیر 11 جنوری 2016 21:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 جنوری۔2016ء) قومی اسمبلی میں پیر کو بھی صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ سے خطاب پر بحث جاری رہی اور مختلف وزارتوں کے بارے میں وقفہ سوالات میں جوابات بھی دیئے گئے،سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کی۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن غلام سرور نے وزیرداخلہ پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور پنجاب میں بھی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو آپریشن کا دائرہ کار پنجاب تک بڑھایا جائے۔

جب وزیر داخلہ کے پاس کراچی جانے کا وقت ہی نہیں ہوگا تو وہاں امن کیسے قائم ہوگا۔پاک چائینہ اقتصادی راہداری پر تین صوبوں کو تحفظات ہیں اسیے متنازعہ نہ بنایا جائے۔حکومتی ارکان نے ان کے الزامات کی مذمت کی جبکہ ایم کیوایم نے کراچی کے دس لاکھ لوگوں کو غیرقانونی کہے جانے کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

(جاری ہے)

بحث کے دوران غلام سرور نے کہاکہ صدرمملکت نے جون میں خطاب کیا اور ابھی تک اس پر بحث چل رہی ہے ، صدر کے خطاب پر بحث مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے اہم قومی ایشوز اس ایوان میں زیر بحث نہیں لائے جا سکے کیونکہ آئین کے مطابق جب تک صدر کے خطاب پر بحث مکمل نہیں ہوتی کوئی اور اہم ایشو ایجنڈے پر نہیں آ سکتا ۔

کیا آج ملک میں سب اچھا ہے امن و امان معیشت بے روزگاری لوڈ شیڈنگ سب مسائل پر قابو پا لیا گیا ؟ صدر نے اس حوالے سے حکومت کو کوئی گائیڈ لائن نہیں دی ۔ نیشنل ایکشن پلان پر بہت کام ابھی باقی ہے ضرب عضب کا کریڈٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے جنہوں نے 5000 جانوں کی قربانی کا نذرانہ پیش کیا۔ فاٹا کے 95 فیصد علاقے کو کلیئر کرالیا گیا مگر حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ۔

متاثرین کی بحالی اور اور باعزت واپسی کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے ۔ کراچی آپریشن کامیابی سے جاری تھی کہ اس پر اعتراض کیا گیا ۔ وہاں دہشتگردی میں معاون لوگوں کو گرفتار کیا گیا ۔ اعتراض کرنے والوں کی بات اپنی جگہ درست ہے کیا دہشتگردی اور کرپشن صرف سندھ اور کے پی میں ہے پنجاب میں سب اچھا ہے ؟ پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی غلام سرور نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے نیشنل ایکشن پلان اورآپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔

ان سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو ضائع ہونے سے روکا جائے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو آپریشن کا دائرہ کار پنجاب تک بڑھایا جائے۔ جب وزیر داخلہ کے پاس کراچی جانے کا وقت ہی نہیں ہوگا تو وہاں امن کیسے قائم ہوگا۔پاک چائینہ اقتصادی راہداری پر تین صوبوں کو تحفظات ہیں اسیے متنازعہ نہ بنایا جائے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے غلام سرور کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی سجنیدگی کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ صدر کے خطاب پر چھ ماہ گزرنے کے باوجود بحث نہ سمیٹی جاسکی اس وجہ سے کئی اہم امور اسمبلی میں نہ اٹھائے جاسکے۔

غلام سرور کا کہنا تھا کہ صدر اپنے نام کی طرح حکومت کے ہی ممنون و مشکور نظر آتے ہیں جن کی تقریر میں عوامی مسائل کا ذکر تک نہ تھا۔ جس پر مجھے افسوس ہے۔ غلام سرور نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ہماری سلامتی کا پلان ہے۔ پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعہ دہشت گردی کے خاتمہ شروع کیا جس کے لئے ہزاروں جانیں بھی دیں۔ فاٹا کی حد تک آپریشن کامیاب رہا جہاں پر پچانوے فیصد تک علاقے کلئیر کرالئے گئے۔

اس کا کریڈٹ پاک فوج کو جاتا ہے۔ مگر حکومت اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کرسکی۔فاٹا سے ہجرت کرنے والوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن کا دائرہ کراچی تک بڑھایا گیا۔ وہاں پر امن وامان تباہ تھا۔ ٹارگٹ کلنک اور بھتہ خوری عروج پر تھی سرمایہ کار وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ کراچی آپریشن نے کامیابی کے کئی زینے طے کئے۔

وزیراعلٰی سندھ نے کچھ اعتراضات اٹھائے۔ وزیراعظم کراچی گئے مگر ان کے پاس وزیراعلٰی کے لئے وقت نہیں تھا، اسلام آباد بلا کر یہ وعدہ کیا گیا کہ وزیر داخلہ کراچی جائیں گے مگر آج تک ایسا نہیں ہوسکا۔ اس طرز عمل سے اس اہم آپریشن کے اثرات ضائع ہوجائیں گے۔ غلام سرور نے سوال اٹھا یا کہ کیا دہشت گردی پنجاب کے علاوہ باقی ملک میں ہے۔ کیا وہاں سب اچھا ہے۔

کیا پنجاب میں انتہا پسندی نہیں۔ اس کا جواب ہے کسی کے پاس؟ خیبر پختونخواہ میں وزرا کو احتساب کے کٹہرے میں لایا گیا۔ سندھ میں سیاسی لیڈر پکڑے گئے کیا پنجاب میں کرپشن نہیں؟پنجاب میں ایک سو نوے مدارس کو بیرون ملک سے فنڈنگ کا اعتراف خود وفاقی وزیر نے کیا، جب پنجاب میں آپریشن نہیں ہوگا تو انگلیاں تو اٹھیں گی۔ غلام سرور نے اقتصادی راہداری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشاور اور اسلام آباد میں اے پی سیز ہوئیں سب نے تحفظات کا اظہار کیا اس کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔

قومی ایشوز پر سب کو ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہئے ۔ گلگت بلتستان میں پچھلی حکومت نے سبسڈی دی موجودہ حکومت نے آ کر ختم کر دی موجودہ حکومت وہاں کے لوگوں کو بھوکا مارنا چاہتی ہے جی بی اور اے جے کے میں ٹیکس کولیشن نہیں ہونی تھی مگر موجودہ حکومت نے یہ بھی کام شروع کردیا ۔ موجودہ حکومت صرف پنجاب کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کو بھی متنازعہ اور سیاسی بنایا جا رہا ہے ملک کی تاریخ میں اتنے اندرونی و بیرونی قرضے نہیں لئے گئے جتنے پچھلے تین سالوں میں لئے گئے نجکاری کا دھبہ بھی اسی حکومت کا ماتھے پر ہے ۔

ہماری معیشت بھی تباہ کی جارہی ہے ۔ سٹیل ملز 2008 تک منافع بخش ادارہ تھا۔ پی آئی اے کے خسارے میں اضافہ ہوا ہے سٹیل مل پانچ ماہ سے بند ہے ایک ادارہ 270 ملین کا مقروض ہو گیا مزدور احتجاج کر رہے ہیں۔ ممبران کو یہاں بات نہیں کرنے دی جاتی اور وزراء گھنٹہ گھنٹہ یہاں پالیسی بیان دیتے ہیں۔ کراچی میں دس لاکھ غیر قانونی لوگ آباد ہیں ان کا ذکر وزیر داخلہ نے نہیں کیا گرین بیلٹ اسلام آباد میں مساجد بند ہیں انکا ذکر نہیں کیا گیا۔

لشکر جھنگوی رائے حق کے نام سے رجسٹر ہو گئی کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام کر رہی ہیں مگر وزیر داخلہ نے یہاں کوئی ذکر نہیں کیا وزیر داخلہ کے حلقے میں 100 غنڈے ہیں اور وہ 100 غنڈے وزیر داخلہ نے پال رکھے ہیں ۔یہ کرائے کے قاتل ہیں جو انتخابات میں استعمال ہوتے ہیں،میں ان کی فہرست ایوان کو دیتا ہوں،ان کے نام نیشنل ایکشن پلان کو دیئے جائیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ایم کیوایم کے رکن ریحان ہاشمی نے کہا کہ کراچی میں جن دس لاکھ لوگوں کو غیرقانونی کہا گیا وہ پاکستانی ہی ہیں،انہوں نے مکتی باہنی کے خلاف جہاد کیا،پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑے،ملک کے لیے قربانیاں دیں،انہیں غیرقانونی کہنا قابل مذمت ہے،جنوبی اور شرقی میں لوگوں میں ڈرا کر ان کی سیاسی وابستگی تبدیل کی جارہی ہے،ہم اس پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے راجہ جاوید اخلاص نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ لیاقت علی خان کی غلطی تھی کہ انہوں نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کیا،اور اس کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے،آج پاکستان پر بھارت نے پٹھان کوٹ حملے کا الزام نہیں لگایا اور دونوں ملکوں نے اسکی مذمت کی ہے، وزیرداخلہ اداروں کو غیر سیاسی بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں،آج بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے اسے جرم سمجھا جاتا تھا،ملک میں امن و امان بہتر ہوا ہے، وزیراعظم چاروں صوبوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔

ملک ابرار احمد نے کہا کہ وزیرداخلہ پر الزام لگانے سے پہلے معزز رکن اپنے گریبان میں جھانکیں،غنڈوں کی سیاست شاید وہ خود کرتے ہیں،جو شخص یہاں موجود نہ ہو اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا قابل مذمت ہے۔