آئین میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے، چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی

حافظ حسین احمد اور صدیق الفاروق کا قومی سیرت کونسل کے زیر اہتمام عید میلاد النبی کانفرنس سے خطاب

جمعرات 7 جنوری 2016 21:16

اسلام آباد ۔ 7 جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔07 جنوری۔2016ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیاہے، انہیں مذہبی آزادی حاصل ہے، اشرافیہ نے ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے، اقلیتوں کے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی بنیادی حقوق فراہم نہیں کئے جا رہے۔ کمیونزم کے خاتمہ کے بعد دہشت گردی کا ”ہوا“ کھڑا کرکے اسلام اور دہشت گردی کا ناطہ جوڑا گیا۔

جمعرات کو قومی سیرت کونسل کے زیر اہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر عید میلاد النبی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کانفرنس کا موضوع موجودہ ملکی اور بین الاقوامی صورتحال کے حساب سے نہایت موزوں ہے، اس طرح کی کانفرنسیں وقت کی ضرورت ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دنیا کا سب سے پہلا آئین اور قانون میثاق مدینہ تھا جس میں 47 کے قریب شقیں شامل تھیں۔

میثاق مدینہ کے ذریعے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جس میں ہم آہنگی، انسانی حقوق کو تحفظ اور ہر انسان کو مذہب کی آزادی کا حق حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ میثاق مدینہ کے وارث ہوتے ہوئے ہمیں کہیں بھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے شکایات موجود ہیں لیکن پاکستان کے آئین کی 22 شقوں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ عام مسلمانوں کو بھی آئین کے مطابق ان کے حقوق حاصل نہیں ہیں کیونکہ اشرافیہ نے وسائل اور قانون پر اپنا قبضہ جمائے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور اسلامی دہشت گردی کا مغربی دنیا میں بہت چرچا کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔

کسی ایک مذہب کے ساتھ دہشت گردی کو وابستہ نہیں کیا جا سکتا اور وہ بھی ایسا مذہب جس نے میثاق مدینہ دیا اور جس نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اُس زمانے میں اکٹھے جینے اور مرنے کا راستہ اور ضابطہ اخلاق فراہم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے لیکن مغربی دنیا میں پہلے کمیونزم کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا گیا اور کمیونزم کے زوال کے بعد پھر یہ لازم ہو گیا کہ ایک اور ہوا کھڑا کیا جائے، اس کے لئے اسلام اور دہشت گردی کا ناطہ جوڑا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انہوں نے مغربی دنیا سے سوال کیا کہ وہ پشاور میں بچوں کو شہید کرنے پر کیوں خاموش رہتے ہیں اور صرف پیرس حملوں کی مذمت کیوں کرتے ہیں۔ امریکہ میں آئے روز اسکولوں میں گُھس کر کوئی بچوں کو گولیاں مار دیتا ہے تو اس کو دہشت گردی نہیں کہا جاتا بلکہ اسے ذہنی بیمار قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی امریکہ میں ہو یا پاکستان میں اسے دہشت گردی ہی سمجھنا چاہئے۔

مذہب سے اس کا تعلق نہیں جوڑنا چاہئے ورنہ یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی سے قبل آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی اور تفرقہ کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم نے محبت اور برابری کا جو پیغام دیا، اس پیغام کو لے کر ہمیں آگے چلنا چاہئے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ او آئی سی نے مسلم دنیا کو درپیش بحرانوں اور چیلنجوں پر خاموشی اختیار کئے رکھی اور اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

پاکستان میں درندگی، مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں، شام اور عراق میں فوجوں کی آمد اور دو برادر مسلم ملکوں کے تنازعہ میں بھی اگر او آئی سی خاموش ہے اور اس نے خاموش ہی رہنا ہے تو اس ادارے کو ختم کر دیا جائے۔ قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ نے کہا کہ مسلمانوں پر ہر نبی کا احترام فرض ہے اور ہر مذہب کے پیروکاروں سے رواداری واجب ہے۔

ہمارا دین اس بات کا درس دیتا ہے کہ اپنے عقیدے پر قائم رہو اور دوسروں کے عقیدے کا احترام کرو اور اسی پیغام میں دنیا کا امن پنہاں ہے۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما حافظ حسین احمد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ہمیں صرف دوسرے مذاہب کے احترام کا نہیں بلکہ دیگر الہامی کتب اور تمام انبیاء کرام پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے۔ مغربی ملکوں میں نبی کریم کی شان میں گستاخی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن مسلمان کسی بھی پیغمبر کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن نبی کریم کی ناموس اور قرآن حکیم کی بے حرمتی ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دفاع کا حق جہاد ہے، دہشت گردی نہیں۔ حیلے بہاؤں سے مسلمانوں کے وسائل لوٹے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتا، جس مذہب نے اپنی جان لینے کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی، وہ کسی اور کی جان لینے کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے۔

متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق نے کہا کہ حکومت اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اسلام اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو آئین کے مطابق ان کے تمام حقوق دینے کی حامی ہیں۔ اسلام نے جبر سے کسی کا مذہب تبدیل کرانے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ تمام مذاہب کی بنیادی باتیں ایک ہیں، کوئی مذہب انسانی دشمنی نہیں سکھاتا، ہمیں متفقات پر جمع ہونا ہوگا اور ملک اور مذہب اپنا اپنا، انسانیت سانجھی کے سلوگن کو اپنانا ہوگا۔

کانفرنس سے سابق وفاقی وزیر اور قومی سیرت کونسل کے چیئرمین نور الحق قادری، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار، پی ٹی آئی کے اسد عمر، وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق بیرسٹر ظفر الله، علامہ ناصر اقبال نقوی، خورشید احمد ندیم، بشپ الیگزنڈر جان ملک، شام سنگھ، پیر شمس الامین اور ہارون دیال نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :