سپریم کورٹ ،مستونگ میں عزت کے نام پر خاتون کے قتل کو دہشتگردی کا مقدمہ قرار دینے بارے بلوچستان ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قرار

ہرعزت کے نام پر قتل دہشتگردی نہیں ، اسلئے ہر مقدمہ دہشتگردی عدالت نہیں بھجوایا جاسکتا، مقدمے کو عام عدالت میں چلایا جائے ،تحریری فیصلہ

جمعرات 7 جنوری 2016 21:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔07 جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ہرعزت کے نام پر قتل دہشتگردی نہیں ہے اس لئے ہر مقدمہ دہشتگردی عدالت نہیں بھجوایا جاسکتا،مذکورہ مقدمے میں استغاثہ نے عام مقدمے کو عزت کا نام پر قتل قرار دلوا کر دہشتگردی کا مقدمہ بنا دیا،اس لئے اس مقدمے کو عام عدالت میں چلایا جائے۔

فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ لیوی اسٹیشن دشت ڈسٹرکٹ مستونگ کے علاقے میں عزت کے نام پر ہونے والے خاتون کے قتل کو دہشتگردی کا مقدمہ قرار دینے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی جانب سے تحریر کردہ خدائے نوربنام سرکار کے مقدمے میں فیصلہ میں لکھا ہے کہ عزت کے نام پر قتل دہشتگردی نہیں ہے،اس لئے اس مقدمے کو دہشتگردی عدالت میں بھجوانا خلاف قانون ہے کیونکہ سے مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ302کو سیکشن34 کو ملا کر پڑھا جائے تو دفعات بنتی ہیں،عام عدالت کا مقدمہ ہے۔

(جاری ہے)

استغاثہ نے اپنی تحقیقات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چونکہ خاتون کے ناجائز تعلقات تھے اس لئے اس کو ملزمان نے قتل کیا،جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مستونگ نے یہ رائے قائم کی چونکہ یہ عزت کے نام پر قتل ہے،اس لئے اس کو انسداد دہشتگردی ایکٹ1997ء کی شق6(1)gکے تحت کارروائی کی جائے گی اور ان کا مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت میں بھجوادیا۔اس طرح کی رائے قائم کرنے کیلئے سیشن جج نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک فیصلے گل محمد بنام سرکار2012ء کا سہارا لیا ہے اس د وران سپریم کورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان کو بغور سنا ہے اور تمام ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے اس اپیل میں جو اہم ترین سوال ہے کہ سیشن جج مستونگ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں ایک مقدمہ جو ایک طرف عزت کے نام پر قتل ہے اور دوسری طرف یہ مقدمہ دہشتگردی ہے اس لئے اس کی سماعت کی اختیار دہشتگردی عدالت کو ہے۔

اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کے تحت تمام عزت کے نام پر ہونے والے قتل دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں اور اسے انسداد دہشتگردی عدالت میں چلایا جائے گا،ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے گل محمد کے مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ1997ء کی دفعہ6(2)gپر تو انحصار کیا ہے مگر انہوں نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کی شق 6کی سب شق کا جائزہ نہیں لیا جہاں بتایا گیا کہ تمام تر عزت کے نام پر ہونے والے قتل دہشتگرفدی کے زمرے میں نہیں آتے،اگر بلوچستان ہائی کورٹ کی یہ بات مان لی جائے تو پھر تمام لوگ قانون کے اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور یہ سب قانون بنانے کا قانون ساز کا مطمع نظر نہیں تھا۔

عزت کے نام پر قتل اور دیگر معاملات قانون میں بالکل واضح ہیں۔ایف آئی آر میں پرائیویٹ موٹیوبنتا تھا جس کو بعد ازاں استغاثہ نے عزت کے نام پر قتل میں تبدیل کردیا۔عدالت یہ سمجھتی ہے کہ ملزم اور اس کے ساتھی ملزم کا مقدمہ دہشتگردی کا مقدمہ نہیں ہے۔اس لئے سٹیشن جج مستونگ کی جانب سے مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت کو بھجوانے اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کرنے کے اقدامات درست نہیں ہیں اس لئے اپیل منظور کی جاتی ہے اور سیشن جج اور بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ ملزمان کے مقدمے کو عام عدالت میں چلایا جائ

متعلقہ عنوان :