سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں سستے اور فوری انصاف کیلئے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے فیصلوں پر بحث

انسانی حقوق کمیشن کے حوالے سے نیا قانو ن جلد کابینہ سے منظور کروا لیاجائیگا‘ کمیشن کے دفتر اور تنخواہوں کے علاوہ 450 ملازمین کی بھرتی کا بھی معاملہ ہے‘وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراﷲ کی بریفنگ

بدھ 6 جنوری 2016 22:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔06 جنوری۔2016ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے منعقدہ اجلاس میں سستے اور فوری انصاف کے لئے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے فیصلوں پر بحث، پنجاب میں گینگ ریپ ، سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی طرف سے نیشنل کمیشن ہیومن رائٹس کی کارکردگی پر بحث 2013 میں لاپتہ افرا د کے بارے میں ذیلی کمیٹی کی رپورٹ اور انسانی حقوق کے علمبردار راشد رحمن کی ہمشیرہ کی طرف سے حراساں کرنے کی سینیٹ آف پاکستان میں عوامی عرضداشت کے معاملات زیر بحث آئے۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی طرف سے پنجاب میں کالعدم تنظیموں کی نام تبدیل کر کے سرگرمیوں اور گینگ ریپ کے اعداد و شمار کے حوالے سے ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ داخلہ ڈاکٹر احتشام نے آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے دیئے گئے فیصلے میں ایف آئی آر کے اندراج ، پراسکیوشن اور سستے اور فوری انصاف کے حوالے سے روڈ میپ نہیں بنایا گیا اور میرے علم میں بھی نہیں ہے اور کہا کہ نیکٹا کے ہر اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے بارے میں تفصیلی بحث کی جاتی ہے پنجاب میں کچھ کالعدم تنظیمیں دوبارہ کام کر رہی ہیں ان کے خلاف اقدامات سرکاری طو ر پر آگاہ نہیں کر سکتا صرف صوبہ پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں متفقہ پالیسی چاہیے۔

(جاری ہے)

جس پر سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے ذمہ دار افسر رٹارٹایابیان دے رہا ہے کہ مجھے علم نہیں کہ تنظیموں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ جامع کارروائی صرف پنجاب میں نہ تمام جگہوں پر ہونی چاہیے یہ بیان وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت ، وزارت داخلہ متعلقہ اداروں کیلئے تکلیف کا باعث ہوگا۔آفسیر اپنا بیان واپس لیں جس پر ڈاکٹر احتشام نے کہا کہ میرا شعبہ عدلیہ سے ہے بہتر جواب ہوم سیکرٹری پنجاب دے سکتے ہیں ۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراﷲ نے کہا کہ کمیٹی کو ٹھیک طریقے سے آگاہ کیا جائے ۔ڈاکٹر احتشام نے آگاہ کیا کہ پنجاب میں ایشیاء کی بہترین فرانزک سائنس لیبارٹری قائم کر دی گئی ہے گینگ ریپ میں ڈی این اے کی دقت کی وجہ سے مسائل تھے گینگ ریپ کے واقعایات پنجاب میں 38فیصد کم ہوئے ہیں 700لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے 70 فیصد گرفتاریاں ہوئیں ۔

برطانیہ سے پراسیکوٹرز کو تربیت دلاوئی گئی ہے پراسکیوشن کا شعبہ مکمل طور پر آزاد ہے ۔ اور آگاہ کیا کہ ایک ہزار گرفتاریاں کی گئی ہیں جن میں نام تبدیل کرنے والی کالعدم تنظیموں عہدیدار بھی شامل ہیں ۔دہشت گردی میں ملوث یا شک میں چھ ہزار لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال یا شر انگریز تقاریر پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں ۔

چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ پنجاب میں جماعۃالدعوۃ ، جیش محمد ، فلاح انسانیت کے نام سے سر عام کام ہورہا ہے اور کوئی قدغن نہیں ۔پنجاب کے بلدیاتی سیاسی نظام میں بھی حصہ لیا گیا کوئی روک ٹوک نہیں کی گئی جس پر ڈاکٹر احتشام نے کہا کہ لوگ نام بدلتے رہتے ہیں اور ٹرسٹ بناکر کام شروع کر دیتے ہیں ۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ گرفتاریوں کے باجود پنجاب میں پولیس اور انتطامیہ ناکام ہے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے ۔

سینیٹر ثمینہ عابد نے پنجاب میں کم سن بچیوں کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعایات کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کر کے سرے عام پھانسی دی جانی چاہیے ۔ڈی آئی جی کرائمز اعظم نے آگاہ کیا کہ قانو ن میں سقم کی وجہ سے اور رضی ناموں پر مجرم عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں ۔اور 70 فیصد کو سزا ہوتی ہے ۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ 100 فیصد کو سز ا ہونی چاہیے تاکہ معاشرے کیلئے مثال ہو ۔

سیکرٹری قانو ن رضا خان نے کہا کہ فرانز ک لیبارٹریاں ہر صوبے میں ہونی چاہیے فون ریکارد ویڈیو سٹیٹمنٹ فرانزک رپورٹس اب عدلیہ کا حصہ ہیں سائنسی ثبوت سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ پاکستان میں موجود انصاف کے دوہرے معیار کے حوالے سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی پنجاب میں کیا صورتحال ہے جس کے جواب میں آگاہ کیا گیا کہ کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ نیچے سے اعلیٰ سطح کوئی قانون سے بالاتر ہو۔

سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے نیشنل کمیشن ہیومن رائٹس کے نمائندوں کی غیر موجودگی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ اچھا اقدام تھا کہیں ضائع نہ ہوجائے متعلقہ افراد کو اجلاس میں ہونا چاہیے تھا بیرسٹر ظفراﷲ نے آگاہ کیا کہ نئے قانون کے حق میں ہیں نیا قانو ن بہتر بھی ہے جلد کابینہ سے پاس کروا لیں گے کمیشن کے دفتر اور تنخواہوں کے علاوہ 450 ملازمین کی بھرتی کا بھی معاملہ ہے ۔

اور کہا کہ سات تجاویز دی گئی جس میں بالخصوص خفیہ اداروں کو قانون کے تحت لایا جانا تھا 60 دنوں میں جواب آنا تھا جواب نہیں آیا سستے اور فوری انصاف کی 2013 کی رپورٹ کی فراہمی پر بھی جواب نہیں ہے ۔سیکرٹری قانون و انصاف جسٹس (ر)رضا خان نے کہا کہ وزارت داخلہ کام کر رہی ہے کمیشن نے بھی کام شروع کر دیا ہے ۔مارچ 2013 کے ٹی اور آرز کی رپورٹ تیا رکر لی گئی ہے جلد وزیراعظم کو پیش کر دیں گے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ وزارت دفاع یا متعلقہ ادارے کو اعتراض ہے تو نئے ڈارفٹ سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے ۔

اور کہا کہ سپریم کورٹ کے چار فیصلوں میں قرار دیا گیا ہے کہ اس معاملے میں قانون سازی کی جائے ۔سات تجاویز میں مسودہ قانون بھی تھا ۔لاپتہ افراد کے کمیشن کے حوالے سے فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ وزارت دفاع نے ابھی تک اپنی رائے نہیں دی اگر رائے نہیں دینا چاہتے تو پھر بھی آگاہ کیا جائے تاکہ کمیٹی آگے بڑھ سکے ۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ قائمہ کمیٹی اور فنکشنل کمیٹی کے دائر ہ کار پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کی ایوان بالاء سے منظوری کے حوالے سے فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ وزارت دفاع کو کون خط لکھے ۔

سیکرٹر ی قانون نے کہا کہ وزارت دفاع کو براہ راست فنکشنل کمیٹی خط لکھے یا معاملے پر ذیلی کمیٹی بنا دی جائے ۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ سینیٹ سیکرٹریٹ کے ذریعے سیکرٹری سینیٹ سیکرٹری دفاع کو خط لکھیں پورے ایوان کا معاملہ ہے ۔چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ مادر پدر آزاد ایجنسیاں ہیں اور بلوچستان کراچی کے معاملات کوئی ہے جو دیکھے وزارت دفاع کا جواب آئے ترمیم تجویز کریں یا مسترد کریں تاکہ کمیٹی حتمی نتیجے پر پہنچ سکے ۔

سینیٹر نثار محمد نے کہاکہ وزارت دفاع کو خط فنکشنل کمیٹی کے ذریعے لکھا جانا چاہیے ۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔چھ ماہ سے تین تین سال تک لوگ لاپتہ ہیں آزاد ذریعے ہزاروں کی تعداد ، ادارے سینکڑوں کی تعداد بتاتے ہیں گنہگار کو سزا ملنی چاہیے لیکن مجرم کے بارے میں پتہ بھی ہونا چاہیے عدلیہ پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں لیکن کسی کو ہم برآمد نہیں کر اسکتے انتہائی اہمیت کا مسئلہ ہے حل نہ تو یہاں بیٹھانا فضول ہے ۔

اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ وزارت دفاع کو خط لکھا جائے کمیٹی میں آکر اپنے موقف سے آگاہ کرے ۔سیکرٹری قانون نے آگاہ پورے ایوان پر مشتمل سینیٹ سے قرار داد پاس ہونے کے بعد90 دنوں میں قانون سازی پر کارروائی شروع ہو جائے گی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار پورے ایوان کی کمیٹی میں فوری اور سستے انصاف کیلئے کھلی بحث ہوئی تجاویز دی گئیں اور رپورٹ مرتب کی گئی چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی عدلیہ کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

اور کہا کہ دیوانی مقدمات ، کرمنل سسٹم ، متبادل طریقہ کار ، ججوں کی سپریم کورٹ کی تعداد میں اضافہ ، مفت قانونی مدد کے حوالے سے بھرپور طریقے سے کوششیں جاری ہیں سپریم کورٹ کی تعدا د27 کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی ۔وزارت انسانی حقو ق خواتین کی مدد کیلئے فنڈ جاری کر رہی ہے ۔انڈو منٹ فنڈ کے بارے میں رولز بنائے جارہے ہیں 1997 سے بننے والے قانون پر کچھ نہیں ہو سکا تھا ۔

بیرسٹر ظفراﷲ نے کہا کہ دو ماہ قبل وزیراعظم پاکستان نے لا ریفارمز کمیٹی بنائی تھی ٹی آو آرز پر کام جاری ہے مسلم لیگ کے منشور میں بھی فوری انصاف کا باب موجو د ہے ۔سستے اور فوری انصاف اور قانونی نظام کو بہترکرنے کیلئے 9 مسوداتی بل تیار کیے جارہے ہیں ۔18 ترمیم کے بعد سی پی سی ترمیم کیلئے صوبوں کی اسمبلیوں میں قرار داد کی منظوری کی کوشش کی جائے گی ۔

وفاق کا دائر اختیار اسلام آباد تک محدود ہوگا۔ دنیا بھر میں مقدمہ ہارنے والا اصل زر واپس کرتا ہے پاکستان میں بھی قانون بنایا جارہا ہے ۔اور نسل ہا نسل تک مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے ایک وکیل نے مقدمہ کولمبا کرنے کیلئے چا ر عدالتوں کیلئے جیب میں درخواستیں ڈالی ہوتی ہیں ۔ لاجسٹس کمیشن کو خط لکھیں گے کہ اپیل کا دورانیہ کم جائے ۔وفاقی وزیر انسانی حقوق زاہد حامد نے کہا کہ الیکشن پٹیشن میں بھی چار ماہ میں فیصلے کا ذکر ہے انتخابی کمیٹی نے تجاویز دی ہے کہ پٹیشنر اور دفاع کرنے والا دنوں گواہی اور شہادت پٹیشن کے ساتھ دیں ٹرئیبونل متین وقت میں فیصلے کا پابند ہوگا ۔

پنجائت سسٹم بھی زیر غور ہے ۔بیرسٹر ظفراﷲ نے کمیٹی اجلاس کو آگاہ کیا کہ مسلم لیگ کی طرف سے 18 ترمیم کمیٹی کا ڈرافٹ مین تھا تجویز دی تھی کہ کچھ چیزیں صوبوں کو نہیں جانی چاہیں کچھ وفاق کے پاس نہیں رہنی چاہیے پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کا مسئلہ تھا 100 فیصدصحت، قانون، تعلیم صوبوں کے حوالے کرنے سے شائد پارلیمنٹ آئندہ واپس لے لے صوبے کے مسئلے پر اگر وفاق بل بنائے گا تو لازمی طور پرصوبے سے قرار داد پاس کرانی پڑے گی اور انکشاف کیا کہ ہندو کمیونٹی سے مشاورت کے بعد ہندو میرج بل بنایا گیا ہے کے پی کے اور بلوچستان نے قرار داد پاس کر دی ہے سندھ اور پنجاب قرار داد نہیں لائی ۔

عیسائی کمیونٹی میں طلاق نہیں ہو سکتی قانون بنایا جارہا ہے اور صوبوں کو قرار دادیں پاس کرانے کیلئے کہا جائے گا۔ کمیٹی کا دوسرااجلاس سینیٹ سیکرٹریٹ کو عوامی عرضداشت بجھوانے والی لبنیٰ کی شنوائی کیلئے سینٹر نثار محمد کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں لبنیٰ نے آگاہ کیا کہ ان کے بھائی راشد رحمن ایڈووکیٹ نے اپنے قتل سے پہلے تحریری طور پر ایک سابق سول جج اور دو وکلاء کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا راشد رحمن کے قتل کے بعد میرے گھر پر بھی کریکر حملے ہوئے انصاف دلانے والا خود انصاف سے محروم ہے اور کہا کہ نامعلوم ملزمان کی بجائے پولیس اصل مجرموں کے خلاف کارروائی کرے اور آگاہ کیا کہ پولیس کی طرف سے مکمل تحفظ موجود ہے اور پولیس کی تفتیش پر بھی اطمیان کا اظہار کیا ۔

سینیٹر نثار محمد نے ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجوداصل مجرموں کی گرفتاری کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب لواحقین کی بھرپور مدد کرے ۔کالعدم تنظیموں کے خاتمے کیلئے کوشش کی جائے کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجاز ت نہیں ہونی چاہیے ۔اور انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اصل مجرموں کو گرفتار کیاجائے۔سینیٹر میر کبیر احمد ، سینیٹر ثمینہ عابدنے مرحوم راشد رحمن کی ہمشیرہ کی سیکورٹی سخت کرنے اور مفرور مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا پولیس افسران نے آگاہ کیا کہ بڑا مجرم پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا ہے دو مجرم افغانستان میں ہیں ۔

پوری کوشش کر کے گرفتار کیا جائے گا۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز فرحت اﷲ بابر ، نثار محمد ، میر کبیر ، مفتی عبدالستار، ثمینہ عابد ، کے علاوہ وفاقی وزیر انسانی حقو ق زاہد حامد، معاون خصوصی وزیراعظم بیرسٹر ظفراﷲ سیکرٹری قانون و انصاف جسٹس (ر)رضا خان ، ایڈیشنل سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب ڈاکٹر احتشام، ڈی آئی جی اعظم ، ایس ایس پی ڈاکٹر عاطف ، کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

کمیٹی اجلاس میں چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہاکہ ان پر کراچی میں22 مقدمات درج ہیں اور گرفتاری کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں معاون خصوصی بیرسٹر ظفراﷲ کے مطابق جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی سزا ہوگی اب دیکھتے ہیں میرے اوپر درج جھوٹے مقدمات کا کیا فیصلہ ہوتا ہے جس پر سینیٹر نثار محمد نے گرہ لگائی کہ میڈم آپ کو گرفتار کرنے والے کہیں باہر موجود تو نہیں ۔

متعلقہ عنوان :