پیپلز پارٹی میں کوئی گروپ بندی نہیں ہے ہم سب نے ملکر بھٹو شہید کے نواسے کا ساتھ دینا ہے‘سینیٹرجہا نگیر بدر

پیپلز پارٹی نے سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں ستر فیصد کامیابی‘ پنجاب میں (ن) لیگ کو صرف سنتالیس فیصد کامیابی ملی ہے‘ میاں منظور وٹو اور دیگر کابلاول ہاؤس لاہور میں شہید زوالفقار علی بھٹو کی 88ویں سالگرہ تقریب سے خطاب

منگل 5 جنوری 2016 22:09

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔05 جنوری۔2016ء) پیپلزپارٹی کے مرکزی قائدین نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی میں کوئی گروپ بندی نہیں ہے ہم سب نے ملکر بھٹو شہید کے نواسے کا ساتھ دینا ہے‘بلاول بھٹو زرداری جب نکلیں گے تو پھر ہر طرف ایک رانجھے جیسے ونجلی بجتی ہوئی دکھائی دے گی ‘معاشی سماجی تبدیلیاں لانے کے لئے پیپلز پارٹی راہیں متعین کرے گی پیپلز پارٹی چار دہائیوں سے ملک کی خدمت کررہی ہے ہمارے لئے یہ بات خوشی کی ہے کہ جولوگ پیپلز پارٹی کے خلاف باتیں کرتے رہے آج وہی بھٹو شہید کی تعریفیں کررہے ہیں ‘ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو شہید یہ جنگ جیت چکے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار بلاول ہاؤس لاہور میں شہید زوالفقار علی بھٹو کی 88ویں سالگرہ تقریب سے بلاول بھٹو کے سیاسی مشیر جہانگیربدر ‘پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو‘ جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود ‘ الطاف قریشی ‘ بیگم بیلم حسنین ‘ ثمینہ خالد گھرکی اور عارف خان نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

جبکہ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کے سینئر مشیر بشیر ریاض نے خطاب کرتے ہوئے کیا جبکہ اس موقعہ پر نوید چودھری‘ میاں محمد ایوب‘ افنان بٹ‘ سہیل ملک‘ حافظ اخلاق احمد خان‘ علامہ محمد یوسف اعوان‘ چودھری منور انجم ‘ اورنگزیب برکی ‘ فیصل میر‘ رانا اشعر نثار‘ زاہد زوالفقار خان‘ اشرف بھٹی ‘ زاہد علی خان ‘ سلیم مغل ‘ راؤ شجاعت علی ‘ بشارت صدیقی ‘ خرم فاروق‘ بشری اعتزاز احسن‘ جہان آراء وٹواور صغیرہ اسلام سمیت دیگر بھی موجود تھے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے سیاسی مشیر جہانگیربدر نے کہا کہ شہید زوالفقار علی بھٹو کا فلسفہ آج بھی اتنا ہی موثر ہے جتنا آج سے چالیس پہلے موثر تھا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کا فلسفہ آج موثر نہیں رہا تو جیالے ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں ہم نے بھٹو شہید کی زندگی میں بھی گینگ آف فور کے ٹولے کا مقابلہ کیا تھااب بھی کریں گے بھٹو شہید کے نظریات کو برؤئے کار لانے کی ضرورت ہے بلاول بھٹو زرداری جب نکلیں گے تو پھر ہر طرف ایک رانجھے جیسے ونجلی بجتی ہوئی دکھائی دے گی اور پیپلز پارٹی ان کے پیچھے دیوانی ہوتی نظر آئے گی پیپلز پارٹی میں کوئی گروپ بندی نہیں ہے ہم سب نے ملکر بھٹو شہید کے نواسے کا ساتھ دینا ہے اور سیاسی معاشی سماجی نظام کی جدوجہد کرنی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھٹو شہید سے جب ایک سفارتکار نے یہ کہا کہ آپ کی پارٹی ختم ہو جائے گی تو انہوں نے کہا تھاکہ پیپلز پارٹی کبھی بھی ختم نہیں ہو گی بلکہ یہ لیڈر بنائے گی اور آپ نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا پیپلز پارٹی نے بہت سے لیڈر پیدا کئے لیکن جب بھٹو شہید پر کڑا وقت آیا تو انہیں یہ لیڈر تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے لیکن اس وقت بھی جیالوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اب بھی جیالے ہی مقابلہ کررہے ہیں ملک کے معروضی حالات آج بھی نہیں بدلے ہیں اور پاکستان آج بھی اسی جگہ پر کھڑا ہے اس لئے بھٹو شہید کے فلسفے کی آج بھی اتنی ضرورت ہے جتنی پہلے تھے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کا نظریہ اب موثر نہیں رہا تو یہ غلط بات ہے اس سے پہلے بھی ایک چار کے ٹولے نے ایسی بات کی تھی لیکن جیالوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اب بھی کریں گے معاشی سماجی تبدیلیاں لانے کے لئے پیپلز پارٹی راہیں متعین کرے گی پیپلز پارٹی چار دہائیوں سے ملک کی خدمت کررہی ہے ہمارے لئے یہ بات خوشی کی ہے کہ جولوگ پیپلز پارٹی کے خلاف باتیں کرتے رہے آج وہی بھٹو شہید کی تعریفیں کررہے ہیں اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو شہید یہ جنگ جیت چکے ہیں کیونکہ جب آصف علی زرداری حکومت تھے تو اس وقت ہر جماعت ان کی حکومت کی اتحادی بنی تھی اور بھٹو شہید کے موقف کی تائید کی تھی اب گیارہ جنوری کو بلاول بھٹو کے لاہور بار کے خطاب سے ہم نے ہر اضلاع کے بار کے عہدیداروں کو شرکت کی دعوت دی ہے ۔

جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میری زندگی ہے پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا بھٹو شہید کا یہی احسان سب سے بڑھ کر ٍہے کہ انہوں نے پاکستان کو اٹیمی طاقت بنایا قوم ان کا احسان نہیں بھولے گی انہوں نے حقیقی معنوں میں ایک محنت کش ایک کسان ایک ہاری کو بولنے کا فن سکھایا اپنے حق کے لئے لڑنا سکھایا اور انہیں بتایا کہ ان کے اصل حقوق کیا ہیں وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان کے لئے بہت کچھ کیا ہے ان کی بیٹی جنہیں چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا آج بھٹو اور بے نظیر جیسے لیڈر کی قوم کو ضرورت ہے کیونکہ آج ملک میں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو یونٹی دکھا سکے آج تو علاقائی لیڈر ہی رہ گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے کہ جس کے لیڈر کارکنوں سے بھی زیادہ قربانیاں دینے والے لیڈر ہیں بھٹو شہید پھانسی چڑھ گئے بے نظیر کو پہلے جلاوطن پھر ان کی شہادت کردی گئی انہوں نے ہمارے لئے دو نشانیاں چھوڑی ہیں ایک تیر کا نشان ایک ان کا فلسفہ آج ایک کونسلر وائس چیرمین اور چیرمین بھی بے نظیر شہید کے انتخابی نشانہ تیر پر الیکن لڑ رہا ہے یہ کتنے اعزاز کی بات ہے میں نے تیر کے نشان پر ہی ضلع رحیم یار خان میں سب سے زیادہ 139نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور میرے گروپ کو ایک نشست پر چھ چھ امیدواروں کی طرف سے پچیس پچیس ہزار کے عوض درخواستیں موصول ہوئیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا نشان کامیابی کا نشان نہیں ہے تو انہیں میرا ضلع دیکھ لینا چاہئے میں نے جنرل الیکشن کے وقت میں نے اپنے ضلع کی قومیا سمبلی کی چھ کی چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اب بھی جنرل الیکشن میں جنوبی پنجاب میں واضح اکثریت حاصل کریں گے میں رکنیت سازی اور تنظیم سازی کا کام شروع کررکھا ہے ایسے امیدوار لاؤں گا جو کامیابیاں حاصل کریں گے ۔

میاں منظور احمد وٹو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو شہید زاتی ربطواں پر یقین رکھتے تھے میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات ساہیوال ضلع کے دورے کے دوران ہوئی تھی انہوں نے اسلامی بلاک بنا کر مسلم ممالک کو اکھٹا کیا پاکستان کو ایک اٹیمی طاقت بنایا جس کی وجہ سے انٹرنیشنل قوتیں ان کے خلاف ہو گئیں آج اسلامی ممالک بکھرے ہوئے ہیں اور ایک کشیدگی کی صورت حال ہے سعودی عرب اور ایران کی جو صورت حال ہے ایسے میں بھٹو شہید جیسے ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو مسلم ممالک کو ایک نکتے پر اکھٹا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے یہ ان کی لیڈر شپ تھی کہ وہ بھارت سے نوے ہزار جنگی قیدیوں کو واپس لائے جو زمین ان کے قبضے میں چلی گئی تھی اس کو وگذار کروایا سوشلزم کو ایک نعرے کے طور پر اپنایا اور عمل بھی کیا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں پیپلز پارٹی نے سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں ستر فیصد کامیابی حاصل کی ہے جبکہ پنجاب میں (ن) لیگ کو صرف سنتالیس فیصد کامیابی ملی ہے صوبہ سندھ میں ہماری حکومت ہے چیرمین سینٹ بھی ہمارا ہے آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے 2002میں (ن) لیگ کا کہیں وجود تک نہیں تھا لیکن آج وہ حکومت میں ہے اس سے پہلے جب بی بی شہید زندہ تھی تو اس وقت بھی ہمارے پاس اکثریت نہیں تھی لیکن بی بی شہید ایک بار پھر بھاری اکثریت سے حکومت میں آئیں پیپلز پارٹی جیسی نہ تو کوئی جماعت ہے اور نہ ہی اس جیسے کارکن کسی جماعت کے پاس ہیں میں نے چیرمین بلاول بھٹو سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی ٹیم بنائیں ہم ان کے ساتھ ملکر کام کریں گے اور خود پیچھے بیٹھ جائیں گے ۔

ثمینہ خالد گھرکی نے کہا کہ آج لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں ان کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ملک میں تبدیلی بھٹو شہید لیکر آئے تھے جنہوں نے عام آدمی کو سیاست میں آنے کا موقع فراہم کیا تھا ہم ہر سال ان کی سالگرہ کے دن اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ان کے مشن کی تکمیل جاری رکھیں گے۔ تقریب کے اختتام پر سالگر ہ کا کیک بھی کاٹا گیا اور جیالے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے جئے بھٹو صدا جئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے بھی لگاتے رہے۔