سینیٹ قائمہ کمیٹی بین الصوبائی رابطہ کا وزارت پٹرولیم کی جانب سے بلوچستان کو پروڈکشن بونس کی ادائیگی بارے جواب نہ دینے پربرہمی کا اظہا ر، نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ، کمیٹی نے بلوچستان کو کیڈٹ کالج کیلئے 430 ملین کی ادائیگی کے معاملے پر تحریری تفصیلات طلب کر لیں، کمیٹی چاروں صوبوں کو اپنے مسائل سے متعلق تفصیلات کیلئے خط لکھے گی

مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے وزیراعظم کو سمری بھیج دی گئی ہے، وفاقی وزیربین الصوبائی رابطہ،قائمہ کمیٹی کی سی سی آئی کا اجلاس جلد بلانے اورکونسل کا سیکرٹریٹ قائم کرنے کی سفارش

پیر 4 جنوری 2016 21:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔04 جنوری۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ نے وزارت پٹرولیم وقدرتی وسائل کی جانب سے بلوچستان کو پروڈکشن بونس کی ادائیگی کے حوالے سے جواب نہ دینے پربرہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ ادارے پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو جواب وقت پر فراہم کریں، قائمہ کمیٹی نے اس حوالے سے نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ بلوچستان کو کیڈٹ کالج کی ڈویلپمنٹ کے 430 ملین کی ادائیگی کے معاملے سے متعلق تحریری تفصیلات طلب کر لیں۔

پیر کوسینیٹ قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سابقہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے علاوہ پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسوسی ایشن ، پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن ، کے معاملات کے علاوہ پلاننگ ڈویژن کی طرف سے پاک چائینہ اقتصادی راہداری اور خاص طور پر صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

صوبہ بلوچستان کو پروڈکشن بونس کی ادائیگی کے حوالے سے بتایا گیا کہ وزارت پٹرولیم وقدرتی وسائل نے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو جواب وقت پر فراہم کریں اور قائمہ کمیٹی اس حوالے سے نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔حکومت بلوچستان کو کیڈٹ کالج کی ڈویلپمنٹ کے 430 ملین کی ادائیگی کے حوالے سے بتایا گیا کہ 5 کیڈٹ کالج 2019 میں مکمل ہونگے اب تک 1705 ملین خرچ ہو چکے ہیں سالانہ ایک ارب درکار ہونگے اور یہ منصوبہ 6ارب میں مکمل ہوگا جس پر چیئرمین کمیٹی نے معاملے کے متعلق تحریری تفصیلات طلب کر لیں ۔

صوبائی اسمبلی بلوچستان کی 18 ترمیم کے حوالے سے قانون سازی کے متعلق قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 50 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے جس پر وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرز ادہ نے کہا کہ پنجاب نے بھی 70فیصد ترمیم کر لی ہے اور بلوچستان اپنی استعداد کو بہتر بنانے کیلئے آگاہ کرے کہ کتنے افسران کی ضرورت ہے ۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ہم صوبوں کو انتظامی امور اور پولیس سروسز کیلئے گریڈ 17 سے21 تک کے افسران فراہم کرتے ہیں ۔

بلوچستان میں بھی افسران کو بھیجا ہے باقی صوبوں کے مطابق ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے چاروں صوبوں سے تفصیلات حاصل کرنے کیلئے خط لکھنے کا فیصلہ کیا کہ و ہ اپنے مسائل سے بھی آگاہ کریں ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سی سی آئی کا اجلاس منعقد نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہا رکیا گیا ۔ چیئرمین اور اراکین کمیٹی نے کہا کہ سی سی آئی کا اجلاس تین ماہ کے اندر ہونا ضروری ہے 260 دن ہو چکے ہیں مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی) کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا جس پر وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرز ادہ نے کہا کہ وزیراعظم کو سمری بھیج دی گئی ہے۔

قائمہ کمیٹی نے سی سی آئی کا اجلاس اور سی سی آئی کا سیکرٹریٹ قائم کرنے کی سفارش کر دی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں دادو خضدار اور جی ڈی خان لورا لائی لائنز کو 725میگاواٹ فراہم کرنے کے حوالے سے بتایا گیا کہ دادو خضدار لائن مکمل ہو چکی ہے دادو خضدار کو 100 میگاواٹ فراہم کر دیئے گئے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ معلومات مکمل نہیں ہیں واپڈا اس حوالے سے تفصیل سے آگاہ کرے اور قائمہ کمیٹی نے نوٹس جاری کرنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط لکھنے کا فیصلہ بھی کیا ۔

صوبہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی نے بتایا کہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے مالی مسائل نہیں ہیں ان کے پاس اضافی فنڈز موجو د ہیں اور بلوچستان کی یونیورسٹیوں کیلئے 32 فیصد بجٹ بڑھا دیاگیا تھا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے ساتھ میٹنگ کر کے باقی معاملات بارے آگاہی حاصل کر لی جائے گی ۔

نیشنل سیکرٹری برائے پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن طاہرہ احمد نے قائمہ کمیٹی کو ادارے کی کارکردگی بجٹ و دیگر معاملات پر تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی بنیاد قائداعظم محمد علی جناح نے 1947 میں رکھی تھی اس کو قومی تنظیم کے برابر حیثیت حاصل ہے ۔اور ایک آرڈیننس کے تحت حکومت اس کی حفاظت کر رہی ہے ۔یہ غیر سرکاری بڑا ادارہ ہے جو لڑکیوں اور نوجوان خواتین کیلئے پاکستان میں کام کر رہا ہے اس ادارے کا الحاق ورلڈ ایسوسی ایشن برائے رہنمائی خواتین اور گرلز گائیڈ کے ساتھ بھی ہے ۔

اس کے علاوہ یہ ایشیاء پیسفیک ریجن کی ممبر بھی ہے ۔ادارے کا مشن جوان خواتین کو مزید ترقی کے مواقع فراہم کر کے اعتماد ، حب الوطنی کو فروغ دینا ہے ۔اس ایسوسی ایشن کو پاکستان کے دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل ہے اور پورے ملک سے اس کے ممبران کی تعداد 1 لاکھ 17 ہزار ہے ۔ادارہ ملک میں ہونے والی ناگہانی آفات کے دوران ریلیف کے کاموں میں مدد فراہم کر تا ہے ۔

اس کی ایک گورنگ باڈی ہے اور اس کی جنرل کونسل کی میٹنگ سال میں ایک دفعہ منعقد ہوتی ہے اور اس کے ہر دوسال بعد الیکشن کرائے جاتے ہیں ۔یہ ادارہ مختلف این جی اوز کے ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتا ہے ۔انہوں نے قائمہ کمیٹی کو صوبہ وار تنظیم کے ممبران بارے بھی تفصیل سے آگاہ کیا ۔قائمہ کمیٹی نے ادارے کی بریفنگ پر اطمینان کا اظہا رکرتے ہوئے اسے مزید بہتر بنانے کی سفارش کرتے ہوئے کہاکہ صوبہ پنجاب کی طرح باقی صوبوں سے بھی غیر رجسٹرڈ ممبران شامل کیے جائیں تاکہ تمام صوبوں کو یکساں مواقع مل سکیں اور کونسل کے کمشنر کی مدت دو سال سے بڑھا کر تین سال کرنے کی سفارش بھی کر دی اور ہر سکول میں گرلز گائیڈ قائم کرنے کی سفارش بھی کی ۔

قائمہ کمیٹی کو پراجیکٹ ڈائریکٹر سی پیک ظاہر شاہ نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے تفصیل سے آگاہ کیا ۔ جس پر اراکین کمیٹی و چیئرمین کمیٹی نے عدم اطمینان کا اظہا رکیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس منصوبے بارے ہمارے تحفظات ابھی بھی قائم ہیں اور یہ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ 46 ارب کے اس منصوبے میں سے 25 ارب سڑکوں اور ایئر پورٹ پر خرچ کیے جارہے ہیں۔

اس کو گورکھ دھندہ نہ بنایا جائے ورنہ یہ منصوبہ کالا باغ ڈیم کی طرح بن جائیگا۔ ہم اس منصوبے کی تکمیل کے حق میں ہیں مگر چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی اور تحفظات دور کیے جائیں۔آغاز حقوق بلوچستان کے تحت گوادر پورٹ کیلئے قانون سازی کی جائے گواردر پورٹ کا نظم و ضبط صوبائی حکومت کو دیا جائے اور آمدن اخرجات بارے پارلیمنٹرین کو آگاہ کیا جائے اس منصوبے کی بدولت مقامی لوگوں اور چھوٹے صوبوں کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے اور ایسے مواقع پیدا کیے جائے جن کی بدولت لوگوں کا احساس محرومی ختم ہو سکے اور کم ترقی یافتے علاقے خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکیں ۔

سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ سرکاری معاملات میں خیبر پختونخوا کا لفظ صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جارہا یہ معاملہ سینیٹ میں بھی موجود ہے اور اس حوالے سے قرار دا دپاس ہو چکی ہے قائمہ کمیٹی سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے اصل حقائق حاصل کرے ۔ قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل، محمد صلاح شاہ ، سعید الحسن مندوخیل، سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ، مسز سسی پلیجو ، مختار احمد دھامرا،روزی خان کاکٹراور مسز نزہت صادق کے علاوہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرز ادہ،سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :