پاک افغان سرحد پر40 سے 50 ہزار افراد کی روزانہ غیر قانونی آمد و رفت ہوتی ہے ،افغانستان کے پاس غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کا کھوج لگانے کی صلاحیت نہیں ، کنڑ، نورستان، پکتیکا اور ننگرہار وغیرہ میں افعان حکومت کی رٹ نہیں، آرمی چیف نے حالیہ دورہ افغانستان میں افغان حکام سے ہونے والی ملاقاتوں میں سرحدی نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت پر بات کی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

جمعہ 1 جنوری 2016 22:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔یکم جنوری۔2016ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہاہے کہ پاک افغان سرحد سے روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 ہزار افراد کی آمد و رفت ہوتی ہے تاہم افغانستان کی جانب سے سرحدی دفاع کے لیے فقط 60 چوکیاں ہیں جو ناکافی ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورہ افغانستان میں افعان حکام سے ہونے والی ملاقاتوں میں سرحدی نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت پر بات کی، پاکستانی سرحد کے ساتھ موجود افغان صوبوں کنڑ، نورستان، پکتیکا اور ننگرہار وغیرہ میں افعان حکومت کی رٹ نہیں ہے ، پاکستان سرحد کی فضائی نگرانی تو کرتا ہے تاہم اس کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کا کھوج لگا سکے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر تین چوکیاں ہیں جن میں خیبر، چمن اور انگور اڈہ شامل ہیں، تاہم درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں سے غیر قانونی طور پر دونوں جانب رہنے والوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورہ افغانستان میں افعان حکام سے ہونے والی ملاقاتوں میں سرحدی نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت پر بات کی۔

جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اپنی سرحد پر قائم 650 چوکیوں میں باقاعدہ طور پر اہلکار موجود ہوتے ہیں تاہم سرحد کے اس پار افغانستان میں صورت حال مختلف ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نیٹو افواج کی موجودگی کے دور میں بھی ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کو مارنا ممکن نہیں تھا، ان پر حملہ تبھی کیا جاتا تھا جب وہ سرحد پار کر چکے ہوتے تھے۔

دسمبر 2014 میں ختم ہو جانے والے سہ فریقی کمیشن کو دوبارہ بحال کیا جائے چاہیے اس میں صرف پاکستان اور افغانستان کے حکام ہی موجود ہوں تاہم یہ ضروری ہے کہ حکام اس کی مدد سے دو سے تین ماہ میں سکیورٹی امور کا جائزہ لیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پاک افغان سرحدی نقل و حرکت کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے تو چیئرمین جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ یہ سرحد ناہموار اور دشوار گزار ہے یہاں باڑ لگانا بھی آسان نہیں۔

جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستانی سرحد کے ساتھ موجود افغان صوبوں کنڑ، نورستان، پکتیکا اور ننگرہار وغیرہ میں افعان حکومت کی رٹ نہیں ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سرحد کی فضائی نگرانی تو کرتا ہے تاہم اس کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کا کھوج لگا سکے۔’ایریئل سرویلینس تو ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس لوگوں کے پیچھا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

ٹنل بھی بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کو دنیا اور افغان حکومت کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ پاکستان اور افغانستان نے سرحدی امور سے متعلق شکایات اور تعاون کے لیے ہاٹ لائن قائم کیا جانا ایک اچھا اقدام ہے تاہم پاکستان، افغانستان اور نیٹو حکام پر مشتمل سہ فریقی کمیشن کو دوبارہ سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دسمبر 2014 میں ختم ہو جانے والے اس کمیشن کو دوبارہ بحال کیا جانا چاہیے اس میں صرف پاکستان اور افغانستان کے حکام ہی موجود ہوں تاہم یہ ضروری ہے کہ حکام اس کی مدد سے دو سے تین ماہ میں سلامتی امور کا جائزہ لیں۔رپورٹ میں کہاگیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود سرحد پر بہت سی جگہیں ایسی ہیں جن کی دوبارہ سے حد بندی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان بہت بار سرحد پر اسی مسئلے کی بنا پر جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔

’حکام کو چاہیے کہ وہ باضابطہ ملاقات کریں، کسی کے پاس روس کا نقشہ ہے تو کسی کے پاس برطانیہ کا نقشہ، یہ سب اتنا آسان نہیں ہے لیکن کیا جا سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے سرحد پر چند کلومیٹر حصے میں باڑ لگائی گئی تھی تاہم افغان حکام باڑ لگانے اور سرنگیں بچھانے کے اقدام کے مخالف ہیں۔