مختلف جماعتوں کے سینیٹرز کا سانحہ اے پی ایس کی جوڈیشل انکوائری اورواقعے بارے حقائق قوم کے سامنے لانے کا مطالبہ

اے پی ایس واقعہ کے زخمی بعض بچوں کا علاج ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے، سینیٹر طاہر مشہدی ،معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھیجا جائے، فرحت اﷲ بابر، نلتر حادثہ کے حقا ئق سامنے لائے جائیں ، سانحہ آرمی پبلک سکول پر عوام اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے، بیرسٹر سیف اور دیگر کاسینیٹ میں سانحہ آرمی پبلک سکول پر تحریک التواء پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعہ 1 جنوری 2016 21:21

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم جنوری۔2016ء ) سینیٹ میں مختلف جماعتوں کے سینیٹرز نے سانحہ آرمی پبلک سکول کی جوڈیشل انکوائری ،واقعے میں ملوث دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قوم کے سامنے حقائق لانے کا مطالبہ کر دیا جبکہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں اور اساتذہ کیلئے یادداشتی میوزیم بنانے اور اس میں ان شہداء اور سانحہ کے روز آرمی پبلک سکول کے مناظر کی تصاویر آویزاں کرنے کی تجویزپیش کی ۔

جمعہ کو سینیٹ میں سانحہ آرمی پبلک سکول پر تحریک التواء پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ جو قومیں اپنے ہیروز کو بھول جاتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔

(جاری ہے)

آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو بے دردی سے مارا گیا اور ان پر ظلم کی انتہا کی گئی ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچے اے پی ایس کے بچے نہیں تھے وہ پورے پاکستان کے بچے تھے ۔

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم آج وہ سب کچھ بھول گئے ہیں ۔ جب 16 دسمبر آتا ہے تو ہمیں وہ سانحہ یاد آجاتا ہے اور ہم فوٹو سیشن کے لئے تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شہید ہونے والے بچوں کے والدین کے اوپر جو گزری وہ ہم سے کوئی نہیں جان سکتا آج ان والدین کو کبھی پولیس دھکے دے رہی ہوتی ہے تو کبھی اعلیٰ حکام سے ملاقات کے لئے انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے اور ان کے مسائل کو کوئی سنتا نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ میں زخمی ہونے والوں بچوں کا علاج بہتر طریقے سے نہیں ہو رہا اور کچھ بچوں کو علاج ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ میں شہید ہونے والوں بچوں کی نا توکسی کے ساتھ دشمنی تھی اور نہ وہ کسی میدان جنگ میں گئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں پر ظلم کرنے والے ذہنی مریض تھے آج ان بچوں، ان کے والدین اور پورے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کروائے تاکہ پتہ چل سکے کہ اس واقعے کا کون ذمہ دار ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے معصوم بچوں پر ظلم کیا آج ان طالبان کے ساتھ حکومت مذاکرات کروا رہی ہے ۔ جوڈیشل انکوائری سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ اس واقعے کا کون ذمہ دار ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کو ایک سال گزر گیا ۔ حکومت نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے متاثرین کو بہت سے پیکچز دیئے مگر سب سے اہم جوڈیشل انکوائری نہیں کروائی ۔

انہوں نے کہا کہ تمام حکومتوں کا وطیرہ بن گیا ہوا ہے کہ وہ جوڈیشل انکوائری کا اعلان تو کر دیتی ہیں مگر ان جوڈیشل انکوائریوں کی رپورٹ آج تک منظر عام تک نہیں آسکیں ۔ انہوں نے کہا کہ کیونکہ یہ واقعہ آرمی کے سکول میں ہوا ہے لہذا اس کا تعلق ڈیفنس سے بھی ہے اس لئے یہ معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھیجا جائے ۔ سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ ہمارے حکمرانوں نے پہلے افغانستان اور روس کی جنگ پھر افغانستان اور امریکہ کی جنگ میں ملک کو استعمال ہونے دیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول نے پوری قوم کو متحد کر دیا اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوا ۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ گزشتہ سال نلتر میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں کئی غیر ملکی سفیر ہلاک گئے مگر آج تک ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ اس ہیلی کاپٹر میں کیا فنی خرابی ہوئی تھی جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے ۔

سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ہم نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد شہید ہونے والی بچوں کو شہادت اور ان کی یاد میں نغمے گا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کر لیں آج ہم سب اس واقعے کے ذمہ دار ہیں اور ہماری وجہ سے ان بچوں کی جانیں گئی اور ان خاندانوں پر قیامت ٹوٹی۔ انہوں نے کہا کہ قوم بدقسمتی ہے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول پر بھی انہیں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور کہاں صوبائی حکومت سے غلطی ہوئی ہے اور کہاں وفاقی حکومت سے ۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول پر ایک میوزیم بنایا جائے جس میں شہید بچوں کی تصاویر لگائی جائیں اور سانحہ کے دن آرمی پبلک سکول کے مناظر اس میوزیم میں رکھے جائیں ۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہمارے دور حکومت میں جوڈیشل انکوائری ہو رہی تھی مگر آج تک اس کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی لہذا اسامہ بن لادن کے واقعے کی رپورٹ میں حساس معلومات ہے تو پارلیمنٹرین کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول اور سانحہ صفورہ گوٹھ آپس میں مماثلت رکھتے ہیں ۔ سینیٹر مشاہد اﷲ نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے اچھی تجویز دی ہے اس حوالے سے حکومت کو غور کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد حکومت نے سخت اقدامات کیے اور سانحہ کے ذمہ داروں کو گرفتار بھی کیا۔