بھارت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے ،14جنوری کو دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ ملیں گے ، مذاکرات میں مسئلہ کشمیر سمیت 10نکات پر بات چیت ہوگی ، بھارتی وزیر اعظم کے دورہ میں 11ممبران کو 72گھنٹو ں کا ویزہ جاری کیا گیا باقی 100افراد ایئرپورٹ پر موجود رہے ، بھارتی وزیراعظم کے رائے ونڈ جانے سے امیگریشن کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ویزے کے اجراء میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے، اس حوالے سے قیا س آرائیاں غلط ہیں

مشیر خارجہ کی جانب سے ایوان میں فراہم کردہ معلومات درست نہیں ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہتے ، حقائق جاننا بھی ہماراحق ہے ، ، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کااظہار خیال

منگل 29 دسمبر 2015 19:18

بھارت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے ،14جنوری کو دونوں ملکوں کے سیکرٹری ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 دسمبر۔2015ء ) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے ،14جنوری کو دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات ہونگے ، مذاکرات میں مسئلہ کشمیر سمیت 10نکات پر بات چیت کی جائیگی ، بھارتی وزیر اعظم کے دورہ میں 11ممبر کو 72گھنٹو کا ویزہ جاری کیا گیا باقی 100افراد ایئرپورٹ پر ہی موجود رہے ، بھارتی وزیراعظم رائے ونڈ گئے جس میں امیگریشن کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا کابل میں آرمی چیف کی افغان اعلیٰ حکام سے ملاقات کے بارے میں وزیر دفاع آگاہ کریں گے ، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ مشیر خارجہ کی جانب سے ایوان میں فراہم کردہ معلومات درست نہیں ہیں ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہتے مگر حقائق جاننا بھی ہماراحق ہے ، جو یہاں بیان نہیں کئے جا رہے ہیں ،آرمی چیف کے دورہ کابل پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کل جمعرات کو سینیٹ کو آگاہ کریں گے ، منگل کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم کے اچانک دورہ پاکستان کے حوالے سے سینیٹ کو آگاہ کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ 30نومبر کو وزرائے اعظم کی ملاقات ہوئی تھی ، اور بھارتی وزیر خارجہ ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں شرکت کے لئے آئے۔

(جاری ہے)

5دسمبر کو بنکاک میں ایس این ایز کا اجلاس ہوا، بھارت سے بات چیت کے عمل کو دوبارہ شروع کیا گیا جو کہ تعطل کا شکار ہوئے ان میں مسئلہ کشمیر سمیت10آئٹمز پر بات چیت ہوئی ۔25دسمبر کو سوا بارہ بجے مودی نے پاکستانی وزیر اعظم کو فون کیا کہ میں کابل سے پاکستان آنا چاہتا ہوں اور وہ 4بجے پاکستان پہنچ گئے 14یا 15جنوری کو دونوں سیکرٹری خارجہ کی ملاقات ہوگی ، مجموعی طور پر دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کو مثبت انداز میں دیکھا گیا بھارت میں کچھ حلقوں نے تنقید ضرور کی ہے ۔

بھارتی وزیراعظم مودی اور 11ممبرز کے لئے 72گھٹنے کا ویزہ جاری کیا گیا اور باقی 100لوگوں کو ایئرپورٹ سے باہر نہیں چھوڑا گیا ، اب تک 5مرتبہ مودی نواز شریف ملاقات ہوئی ہے ، رسمی بات چیت میں بہت اہم مسائل پر بات ہوتی ہے ، دونوں سیکرٹری خارجہ کی ملاقات کے بعد مذاکرات کے دور کا آغاز ہوگا، کابل میں آرمی چیف کی افغان اعلیٰ حکام سے ملاقات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بارے مکمل رپورٹ فراہم کی ہے اور وزیر دفاع اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کریں گے ۔

مجھے وہاں کے سفیر نے رپورٹ کی بریفنگ دی ہے ، اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ مشیر خارجہ جو معلامات فراہم کیں ہیں وہ درست نہیں ۔ہم پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں اور حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں مگر یہ ایوان حقائق جاننا چاہتا ہے جو بیان نہیں کئے جا رہے ، کھٹمنڈو میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں کیا ہوا برکھادت نے اس پر کتاب لکھی۔

مشیر خارجہ کو تمام حقائق کے ساتھ ایوان میں آنا چاہئیے مشیر خارجہ سرتاج عزیر نے کہا کہ ہم کھٹمنڈو میں ملاقات کی تردید کی ہے اور میں نے حقائق بیان کئے ہیں ۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ ہم تعلقات کے مخالف نہیں ہیں مگر حقائق مبہم بیان کئے جا رہے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے سامنے بھارت کے ساتھ تعلقات بارے تمام حقائق سامنے رکھے۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ایک ٹوئٹ کے ذریعے مودی نے بتایا کہ وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں ۔کابل میں ہاکستان کے خلاف بیان دیکر پاکستان میں لطف اندوز ہونے کے لئے آئے ۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان اور اففانستان اس وقت دہشت گردی سے متاثرہ ہیں ۔خطے میں امن کے لئے تعلقات ہونے چاہیئں مگر برابری کی بنیاد پر ہونے چاہیئے۔ سینیٹر ڈاکٹر جہاندیب جمال الدینی نے کہا کہ اس طرح کی ملاقاتوں کو ہونا چاہئیے اور اس پر تنقید نہیں ہونی چاہیئے ، مثبت انداز سے سوچنا چاہیئے ۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دونوں وزرائے اعظم میں قدریں مشترک ہیں مزدوروں اور کسانوں کے دشمن ہیں، سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد حکومت کے پاس کوئی ایجنڈا ہے کہ حالات بہتر ہونگے ۔لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کادورہ ہمارے موقف کی تائید ہے اس پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔منفی سوچ کے بجائے حکومت کو سراہنا چاہیئے ۔

سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ مذاکرات ہونے چاہیئے ، گولی کی بجائے بولی کے ذریعے مسائل حل ہوتے ہیں اس ملاقات کے پس منظر میں امریکہ برطانیہ کا دباؤ ہے یا پھر ساجن دل کا دباؤہے ۔ پاکستان نے مثبت سفارت کاری کی ہے ۔ یہ ملاقات کس کے دباؤ سے ہوئی۔ افغانستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات کے لئے راستہ پاکستان سے ہی جاتا ہے ۔ سشما سوراج نے اپنی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیااور بروقت ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیئے ۔

کانفرنس کے بعد بریفنگ کو سراہا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ کھولا گیا ہے اور لائن آف کنٹرول پر عالمی دنیا کو بتایا گیا اور عالمی دنیا نے بھارت پر دباؤ ڈالا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرے ۔عالمی دنیا کو بھارت کی پاکستان اور مسلم دشمنی کے حوالے سے واضح طور پر آگاہ کیا گیا ان کیمرہ سیشن میں بھارت کے ساتھ تعلقات اور آرمی چیف کی افغانستان بریفنگ دی جائے گی