کراچی میں آپریشن سات آٹھ سال پہلے شروع ہونا چاہئے تھا، امن و امان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا، نوازشریف، امن کی بحالی سے کراچی میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور بیرون ملک سے سرمایہ کار کراچی کا رخ کررہے ہیں،وزیراعظم کی گورنر ہاؤس میں اجلاس سے خطاب

پیر 7 دسمبر 2015 18:29

کراچی میں آپریشن سات آٹھ سال پہلے شروع ہونا چاہئے تھا، امن و امان پر ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 دسمبر۔2015ء) وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ کراچی میں آپریشن سات آٹھ سال پہلے شروع ہونا چاہئے تھا، امن و امان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کراچی آپریشن کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا تھا، آپریشن کے اہداف بہت واضح ہیں،امن کی بحالی سے کراچی میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور بیرون ملک سے سرمایہ کار کراچی کا رخ کررہے ہیں۔

پیر کو یہاں گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں امن کے لیے تمام اداروں کی کوششیں قابل تحسین ہیں، امن و امان پر کوئی حکومت سمجھوتہ نہیں کرسکتی اور کراچی میں امن کے لیے وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے بھرپور تعاون کیا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف پیر کو سندھ میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کراچی پہنچے۔

گورنر ہاؤس میں وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ آصف، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، ہوم منسٹر سہیل انور سیال، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان اور اعلیٰ عسکری قیادت بھی شریک ہوئے۔

اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف جب کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے تو گورنر عشرت العباد، وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور دیگر نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد ہیلی کاپٹر میں وزیراعظم سونمیانی روانہ ہوئے اور وہاں پاک فضائیہ کی مشقوں کا معائنہ کیا۔مشقوں کے معائنے کے بعد وزیراعظم واپس کراچی پہنچے، جہاں انھوں نے گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔

اجلاس کے دوران چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں 2688 کیسز چل رہے ہیں، جن میں سے نومبر 2015 کے دوران 66 کیسز کا فیصلہ ہوا، 30 ملزمان کو سزا ہوئی اور باقی ملزمان کو بری کردیا گیا۔وزیراعظم نے کمزور استغاثہ اور تفتیش پر افسوس کا اظہار کیا۔

آئی جی سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ رینجرز اور ملٹری پولیس پر حملہ کرنے والے مجرموں کو پکڑ لیا گیا ہے۔اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔انھوں نے بتایا کہ سندھ پولیس کو بکتر بند گاڑیاں، جدید اسلحہ اور نادرا کے ڈیٹا تک رسائی دی جائے گی۔قائم علی شاہ نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کی مزید 30 عدالتیں بنائی جارہی ہیں۔

اس موقع پر وزیراعظم نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس زیادہ سے زیادہ بلائے جائیں۔وزیر داخلہ چوہدری نثار کا اجلاس کے دوران کہنا تھا کہ کراچی آپریشن میں پولیس اور رینجرز نے بہت قربانیاں دی ہیں، کراچی آپریشن کو ابتداء میں سپورٹ حاصل تھی، لیکن بعد میں یہ سپورٹ کم ہوتی گئی لیکن اس آپریشن کو عوام کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں سندھ میں رینجرز کے قیام کی مدت اور اختیارات میں توسیع کا معاملہ بھی زیربحث آئے گا۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ روز واضح کیا تھا کہ قانونی تحفظ کے بغیر رینجرز کو سندھ حکومت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبائی حکومت نے خصوصی اختیارات کی مدت میں توسیع نہ کی تو رینجرز کو واپس بلوالیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے کچھ ماہ قبل رینجرز کو کراچی میں دیئے گئے خصوصی اختیارات کی مدت 6 دسمبر بروز اتوار ختم ہوگئی۔رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی سمری وزیر اعلیٰ ہاؤس کو ارسال کی جاچکی ہے، تاہم اس کی منظوری ابھی تک نہیں دی گئی۔سندھ میں رینجرز کے اختیارات کا تنازع رواں برس شدت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ سندھ میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران اب اس نیم فوجی فورس کی جانب سے مختلف جرائم کے الزام میں حکومتی ارکان کی گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔

رینجرز کے اختیارات میں عمومی طور پر ہر 3 ماہ بعد توسیع کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا تھا مگر رواں برس 8 جولائی کو صوبائی حکومت کی جانب سے ایک ماہ کی توسیع کا نوٹس جاری کیا گیا۔8 جولائی کو کی گئی رینجرز کے اختیارات میں ایک ماہ کی توسیعی مدت 8 اگست کو ختم ہو رہی تھی جس میں صوبائی حکومت نے 4 ماہ تک کا اضافہ کیا جو اب 6 دسمبر کو ختم ہوگئی۔واضح رہے کہ رینجرز نے کراچی میں ستمبر 2013 میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تھا جو تاحال جاری ہے، ان 2 سالوں میں آپریشن کے نتیجے میں جرائم میں کسی حد تک کمی آئی ہے مگر تاحال شہر میں جرائم پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔