ایف بی آر 30 ارب سے زائد کے سیلز ٹیکس کی وصولیاں کرنے میں ناکام

پیر 16 نومبر 2015 12:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔16 نومبر۔2015ء) ایف بی آر4 سال گزرنے کے باوجود 30 ارب سے زائد کے سیلز ٹیکس کی وصولیاں کرنے میں ناکام ہوگیا ہے ،آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے احکامات بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے گئے،عدالتوں میں17 کروڑ روپے کے سیلز ٹیکس کے خلاف زیر سماعت مقدمات کو وکلاء نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا جبکہ ریونیو افسران اپنا کمیشن کھرا کر کے نادہندگان کا ریکارڈ منظر عام سے غائب کرنے لگے۔

(جاری ہے)

آڈیٹر جنرل آف پاکستان آفس کی رپورٹ کے مطابق مالی سال2010-11 کے 544 کاروباری افراد کمپنیوں کے ذمہ واجب الادا 30 ارب94 کروڑ روپے سیلز ٹیکس کی وصولیاں تاحال نہیں ہو سکیں ہیں، آڈٹ حکام نے2011 میں اس کی نشاندہی کرتے ہوئے ایف بی آر کو کو نوٹس جاری کیا تھا کہ مذکورہ رقم فوری طور پر وصول کی جائے ،آڈٹ حکام کے اعتراضات کی روشنی میں محکمانہ آڈٹ کمیٹی کے چھ اجلاس اگست2011 ،اگست2013 ،نومبر2014 اور اپریل ،جولائی ،ستمبر 2015 کو منعقد ہوئے ،جہاں ایف بی آر حکام نے سیلز ٹیکس نادہندگی کے مذکورہ کیسوں بارے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2 ارب 47 کروڑ روپے کی وصولی ہو چکی ہے ،2 ارب 88 کروڑ روپے معاف کر دیئے گئے جبکہ 70 کروڑ 50 لاکھ36 ہزار روپے کا سیلز ٹیکس معاف کرنے کی تجویز ہے، اس کے علاوہ 16 کروڑ65 لاکھ 82 ہزار کے سیلز ٹیکس کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جس پر عدالتوں نے 4 سال سے سٹے آرڈر جاری کر رکھا ہے، ایف بی آر حکام کو مزید بتایا گیا کہ 82 کروڑ65 لاکھ74 ہزار روپے کے نادہندگان کو عدم پتہ لکھا گیا جبکہ بقیہ 23 ارب88 کروڑ64 لاکھ54 ہزار روپے کا ٹیکس واجب الادا قرار دیا گیا جو تاحال وصول نہیں ہو سکا، واضح رہے کہ ایف بی آر کی رپورٹ میں جن2 ارب47 کروڑ روپے کی وصولی کی رپورٹ جمع کرائی گی اس کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی جبکہ محکمانہ آڈٹ کمیٹی اور آڈٹ حکام کی جانب سے ایف بی آر حکام کو ہدایت کی گئی کہ23ارب88 کروڑ64 لاکھ 54 ہزار روپے کی وصولی تیز کی جائے ،عدالتوں میں16 کروڑ65 لاکھ82 ہزار روپے کے سیلز ٹیکس کے خلاف جاری ہونے والے سٹے آرڈر ہٹانے کی درخواست جمع کرائی جائے جبکہ82 کروڑ65 لاکھ74 ہزار روپے کے عدم پتہ نادہندگان بارے تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے تاہم ایف بی آر حکام کی جانب سے مذکورہ رقم کی وصولی معمولی کوشش بھی نہیں کی گئی بلکہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو جہاں ایک جانب ایف بی آر کے وکلاء نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور چار سال میں سٹے آرڈر ہٹانے کی درخواست تک جمع نہیں کرائی،وہیں دوسری جانب ریونیو افسران بھی نادہندگان سے محض اپنا کمیشن کھرا کر کے واپس آجاتے ہیں اور نادہندگان کو عدم پتہ لکھ کر کاغذوں کا پیٹ بھر لیتے ہیں

متعلقہ عنوان :