اسرائیل مصر گٹھ جوڑ نے غزہ کے دو ملین عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، انسانی حقوق تنظیم

جمعہ 13 نومبر 2015 14:50

غزہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 نومبر۔2015ء) انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے فلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے غزہ کی پٹی سے متعلق مصری حکومت کی اختیار کردہ معاندانہ پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور مصر نے مل کر غزہ کی پٹی کے دو ملین لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔

اطلاعات کے مطابق انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالے ادارے ڈیموکریٹک ہیومن رائٹس کی جانب سے جاری بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ مصر اور اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم نہ کی تو وہاں پرخوفناک انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے جس کی ذمہ داری ان دونوں ملکوں پرعائد ہوگی۔ بیان میں ہفتہ قبل مصری بحریہ کی فائرنگ سے غزہ کی پٹی میں ایک 17 سالہ لڑکے فراس محمد مقداد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی مظالم کے بعد اب مصری فوج بھی غزہ کے بچوں کا شکار کرنے لگی ہے۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے ماہی گیروں کو سمندر میں فائرنگ کا نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مصری فوج نے فلسطینی بچے کو گولیاں مار کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا غزہ کی پٹی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی کا رشتہ ہے۔انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے ساحل سمندر میں ماہی گیروں کو گولیاں مارنا 1989 ء میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے طے پانے والے ایک عالمی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس معاہدے میں کسی بھی علاقے کے بچوں کومرضی کی زندگی گزارنے کا حق دیا گیا ہے۔ کسی ملک کی فوج کو بچوں پر مظالم ڈھانے اورانہیں قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیاہے کہ مصری فوج کا غزہ کی پٹی کے دو ملین لوگوں کیساتھ رویہ اسرائیلی پالیسی سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ مصری فوج بھی فلسطینیوں کو اسی طرح مشکلات سے دوچار کررہی ہے جس طرح اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔

متعلقہ عنوان :