سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات کا اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق سے صوبوں کو وزارتوں اور اثاثوں کی منتقلی تک مسلسل اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ ،حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

وفاقی حکومت کو پیداواری کمپنیوں کی حاصل ہونے والی تیل گیس پیداوار کا اندازہ کرنے کیلئے میکنزم موجود نہیں، اس میں سندھ کو پونے دو سو ارب سالانہ نقصان ہو رہا ہے،اجلاس میں انکشاف

بدھ 11 نومبر 2015 19:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 نومبر۔2015ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق سے صوبوں کو وزارتوں اور اثاثوں کی منتقلی تک مسلسل اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ اور حکومت سے آئینی تقاضے کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس مسلسل بلانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کو پیداواری کمپنیوں کی حاصل ہونے والی تیل گیس پیداوار کا اندازہ کرنے کیلئے میکنزم موجود نہیں، اس میں سندھ کو پونے دو سو ارب سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کی صدارت اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں وزارت بین الصوبائی رابطہ ،کابینہ سیکرٹریٹ اور اسٹبلیشمنٹ ڈویژن کے سیکرٹریوں سے 18 ویں آئینی ترمیم ،عملدآمد کی موجودہ صورتحال، مسائل ، اقدامات عملدآمد سکیم کے حوالے کے علاوہ سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل کی طرف سے 5 اکتوبر2015 کے سینیٹ اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ دفتر کی لاہور سے اسلام آباد منتقلی پر تفصیلی بحث ہوئی۔

(جاری ہے)

ایوان کی اہم ترین اس کمیٹی کے اجلاس میں ممبران کی شرکت بھرپور تھی ۔ اجلاس میں سینیٹرز کامل علی آغا ، الیاس احمد بلور، طاہر حسین مشہدی ، تاج حیدر، محمدعلی خان سیف، عائشہ رضا فاروق ، عثمان خان کاکٹر ، چوہدری تنویر خان، لیاقت خان ترکئی ، اقبال ظفر جھگڑا ، کے علاوہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیر زادہ ، سیکرٹری کیبنٹ حسن راجہ،سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ندیم احسن افضل ، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہر یار خان، کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

چیئرمین کمیٹی اور سینئر سیاستدان سینیٹر حاصل خان بزنجو نے کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا ء میں یہ کمیٹی اہم ترین ہے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اہم پیش رفت تھی تو 18 ویں آئینی ترمیم پر من وعن عملد رآمد ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد حقیقی وفاق کی طرف سفر پر گامزن ہیں 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد کنکرنٹ لسٹ پر بھی بحث شروع ہوئی تھی 18 ویں آئینی ترمیم بہت پہلے منظور ہو جانی چاہیے تھی بعض مجبوریوں کی وجہ سے تاخیر کی گئی ۔

پارلیمنٹ کی کمیٹی وسائل کی برابر تقسیم اور اختیارات مکمل منتقل کرنے اور وفاق اور وزارتوں کے اثاثے بھی صوبوں کے حوالے کرنے کیلئے بنی ہے، اختیارات کی مکمل تفویض تک کمیٹی کے اجلاس مسلسل منعقد ہوا کریں گے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری کابینہ نے آگاہ کیا کہ 102 ترامیم ہوئیں کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا عمل درآمد کمیشن کے 68 اجلاس منعقد ہوئے جس میں طے ہوا کہ وفاقی ملازمین کو صوبوں میں بھجوایا جائے گا اور کسی بھی ملازم کو برخاست نہیں کیاجائے گا۔

17 وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئیں 6 ہزار6 چھ سو 96 ملازمین کو صوبوں میں بھیجا گیا 50 ہزار 4 سو11 ملازمین وفاقی دفاتر میں رہ گئے ایک لاکھ 19 ہزار آئٹمز صوبوں کے حوالے کیے گئے 60 سے زائد وفاق کے پاس ہیں کل گاڑیاں1191 تھیں 717 وفاق کے پاس ہیں۔ سیکرٹری کابینہ نے سینیٹر تاج حیدر کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او آئی بی صوبوں کو واپس ہو چکے پنجاب میں ای ٹی پی بی کو حوالے کرنے کا معاملہ اٹھایا جو سپریم کورٹ میں ہے۔

سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ ری اسٹرکچرنگ صوبوں کے حق میں ہے۔ چوہدری تنویز نے کہا کہ وضاحت طلب باتوں اور ابہام کے خاتمے کے لئے اور زیادہ محنت سے کام کر کے آگاہ کیا جائے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت صوبوں کو دیئے گئے اختیارات میں اثاثے اور بنیادی ڈھانچے بھی حوالے کیے جائیں۔ سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ پاکستان آئل سیڈ ڈی آر اے اور ایچ ای سی کے ملازمین کے معاملات حل طلب ہیں۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر حاصل بزنجو کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ڈرافٹ کابینہ کو نہیں بھجوایا گیا اجلا س میں سی سی آئی کا آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت میں منعقد نہ کرنے کا معاملہ زیر بحث رہا اور قرار دیا گیا کہ سی سی آئی کا اجلاس جلد منعقد کیا جائے۔ سینیٹر تاج حیدر نے 18 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے کچھ اداروں جن میں جناح ہسپتال اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں اور پنشن ادا نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ زیادہ ٹیکسز نہ دینے والے صوبے کا نقصان ہو رہا ہے تیل و گیس کے علاقوں اور پیداوار کی ملکیت 50 فیصد صوبوں کا حصہ ہے رائلٹی 100 فیصد ہے جو ادا نہیں ہو رہی اور انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت کو پیداواری کمپنیوں کی حاصل ہونے والی تیل گیس پیداوار کا اندازہ کرنے کیلئے میکنزم موجود نہیں، اس میں سندھ کو پونے دو سو ارب سالانہ نقصان ہو رہا ہے، سینیٹر الیاس بلور نے بھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں گیس رائلٹی اور منافع کے نقصان کا معاملہ اٹھایا۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ حکومت تفویض اختیارات کے خلا ف نہیں محتاط طریقے سے آگے بڑھنا ہوگا، اجلاس مسلسل منعقد ہونے چاہئیں آخری این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو زیادہ ادائیگی کی گئی۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ آئین میں 90 دنوں کے اندر سی سی ای کا اجلاس منعقد کرنے کی پابندی ہے اجلا س منعقد نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق کے باجود اسلام آباد کے مداخلت ہو رہی ہے سی سی آئی کا سیکرٹریٹ نہیں سہ ماہی اجلاس منعقد نہیں ہورہا وفاق کے اداروں میں صوبوں کی نمائندگی نہیں جی ڈی سی آئی کے بقایا جات ادا نہیں ہو رہے اور انکشاف کیا کہ وفاق کے اداروں میں درجہ چہارم سے اعلیٰ افسروں تک 60 فیصد بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں کی گئی ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے آئل اینڈ کمپنیوں کی پیدوار خالص منافع بہبود کے استعمال فنڈز وسائل کی تقسیم ملازمتوں کے کوٹے کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہمی کی ہدایت دی سینیٹر کامل علی آغا نے اجلاس سے وفاقی وزیر صوبائی رابطہ کے چلے جانے پر کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد او رنگرانی کاکا م صوبائی رابطہ وزارت کا ہے اور وزیر ہی اجلاس سے اٹھ گئے ہیں اور کہا کہ روزانہ اجلاس منعقد کر کے وفاق کے خلاف پکنے والے زہر کو روکا جائے ورنہ 18 ویں آئینی ترمیم کی کاوشیں رائیگاں جائیں گی ۔

کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار نے آگاہ کیا کہ دنیا میں کرکٹ بورڈ ہیڈکوارٹر دارالخلافے سے باہر ہیں لاہور میں ہاکی ، فٹ بال اور اولمپک کے گراؤنڈ موجود ہیں قذافی سٹیڈیم بورڈ کے پاس لیز پر ہے دفاتر گراؤنڈ اور بین الاقوامی نیشنل ایکڈمی کے علاوہ 305 ملازمین کی رہائشی کالونی لاہور میں ہے اسلام آباد میں بورڈ کو جو زمین دی گئی تھی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی ہے اسلام آباد میں بورڈ کے پاس کوئی عمارت نہیں اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے اور بتایا کہ ملک بھر میں علاقائی اکیڈمیاں بنائی جارہی ہیں مزید 16 آئندہ پانچ سال میں بنا دی جائیں گئیں فاٹا آزاد کشمیر بلوچستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے کوچز بھیجیں گئے ایکڈمیاں بنائیں گے اور انکشاف کیا کہ انڈر16 کیمپ میں 20 کھلاڑیوں میں سے 4 ڈیرہ مراد جمالی سے ہیں جو پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے اور آگاہ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اربوں روپے کے ٹیکس ادا کر تا ہے اجلاس میں سفارش کی گئی کہ ملک بھر میں کرکٹ ایکڈمیاں قائم کی جائیں اور نئے کھلاڑیوں کیلئے بھی سہولیات فراہم کی جائیں اور فاٹا میں بھی کرکٹ ایکڈمی قائم کی جائے ۔