انسانی حقوق کمیشن کی رکنیت اب ایشیاء پیسفک ریجن کو دی جا رہی ہے ،مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بناناہوں گے، اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم ہمارا آئین دیتا ہے، مشاہد حسین

بدھ 11 نومبر 2015 19:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 نومبر۔2015ء) چین پاکستان اقتصادی راہداری بارے پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن کی ممبر شپ اب ایشیاء پیسفک ریجن کو دی جا رہی ہے ،مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے ہوں گے۔ اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم ہمارا آئین دیتا ہے، انسانی حقوق کی وزارت بنانی چاہیے ۔

سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ یہ رپورٹ جو پالیسی کے حوالے سے پیش کی گئی ہے 2 سال پرانی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 40 میں مسلم دنیا سے تعلقات اور بیرونی دنیا کے ساتھ معاملات بہتر انداز سے حل کرنا ہو گا۔ موجودہ حالات میں عالمی امن بالعموم اور بالخصوص پاکستان کے امن کو برقرار رکھنے کیلئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔

(جاری ہے)

اب بھی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جن پر پابندی ہے مگر وہ اپنا کام کر رہی ہیں۔

ملک میں ایسے لوگ اب بھی ہیں جن کو بعض لوگوں کی طرف سے مکمل تعاون حاصل ہے۔ مذہب کو غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 27 کے تحت ملازمتوں میں کوٹہ کے حوالے سے پالیسی بنائی جاتی تھی مگر نہیں بنائے گئے۔ بدھ کو وفاق کے معاملات‘ پالیسی اصولوں کی تعمیل اور عملدرآمد پر سالانہ رپورٹ برائے سال 2012.13 پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹرلیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ آج ہمیں سوچنا ہو گا کہ آج ہم کھڑے ہیں کیونکہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات‘ خطے کے حالات کی وجہ سے ہمیں 2013-14ء کی انسانی حقوق کی رپورٹ 2014-15 بھی مرتب کرنی چاہیے ۔

آرمڈ فورسز نے تمام حالات میں ملک کو سنبھالا ہے لہذا سکولوں میں بھی اس طرح کی ٹریننگ کا انعقاد کیا جائے کہ ہنگامی حالات میں ہمیں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پالیسی اصولوں کی تعمیل اور عملدرآمد آئین کے رہنمااصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ اختیارت کی نچلی سطح پر منتقلی بھی اسی پالیسی کا حصہ ہیں اور گزشتہ 10 سالوں میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے اختیارات منتقل نہ ہو سکے اور اب بھی بعض جگہوں میں اختیارات منتقل نہیں کئے گئے۔

پاکستان کے بعض علاقوں میں اقلیتوں سے زبردستی مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بیرونی دنیا کے ساتھ روابط اور تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ ۔ سینیٹرمیر حاصل بزنجو نے تحریک پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس ملک میں سیاسی طور پر بلدیاتی انتخابات کو غیر جماعتی کیا گیا تو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیسے ممکن ہو گی۔

پاکستان ترقی کے اہداف میں سے کسی ہدف کو حاصل نہیں کر سکا۔ ہماری پالیسی تو یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ نا روا سلوک رکھا جاتا ہے اور بدترین رویہ کے ذمہ داروں کو سزا بھی نہیں دی جا تی۔ تعلیم پر 2 فیصد بجٹ مختص کر کے ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہندوؤں ‘ عیسائیوں سے پاکستان میں مسلمان زیادہ مارے جا رہے ہیں ۔ سینیٹر بیرسٹر جاوید عباسی نے کہاکہ مذہب کو دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہیے بلکہ دنیا کی ناانصافیوں کی وجہ سے بدامنی ہے۔

قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ادارے مضبوط اور با اختیار ہونگے تو عوام کے مسائل ہونگے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ 1973ء کے آئین نے آمروں کے دور میں بھی جمہوریت کا دفاع کیا۔ پچھلے دور میں ہم نے آئین کا دفاع کیا اور آج یہاں دوسرے وزیر ہمارے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ فیصل آباد میں عیسائی لڑکی پر تشدد کاجواب نہیں دیا گیا۔ وفاقی کابینہ میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں۔

سینیٹر چوہدری تنویرخان نے کہاکہ آئین کے قواعد و ضوابط پر عمل کر کے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ آج مسلمان ممالک میں مسائل ہیں جن کی وجہ دین سے دو ری ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ ہم قرآن پر حلف اٹھاتے ہیں اور بیواؤں اور یتیموں کا مال کھاتے ہیں ۔لسانی تعصبات پر سیاست کی جاتی ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے 18 ویں ترمیم کے خلاف ایک محاذ کھولا گیا بیورو کریسی کی جانب سے اور انسانی حقوق کی خلاف ‘ مذہب کے نام پر قتل عام کیا گیا۔

معاشی اور سماجی انصاف ناپید ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ غربت کی وجہ سے بچے کوڑا کرکٹ سے رزق حاصل کر رہے ہیں اور خواتین سڑکوں پر کام کر رہی ہیں جن کو مذہب اسلام نے حقوق دئیے۔ آرٹیکل 31 کے تحت قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک اﷲ کی کتاب عربوں کی کتاب نہیں یکساں نظام تعلیم میٹرک تک ہونی چاہیے۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہاکہ آئین کی بالادستی کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے 18 ویں ترمیم کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچایا جا رہا ہے۔

وزارتوں کی جانب سے کمیٹی کے ساتھ رویہ درست نہیں حے۔ سینٹ کو ایک ایک پالیسی بنانی چاہیے کہ جو عوام کے مفاد میں ہو۔ سینیٹر ساجد میر نے کہاکہ پالیسی اصولوں کی پاسداری ہم سب پر لازم ہے۔ کانفرنسز کے انعقاد سے اسلام نہیں پھیلتا۔ ہم اپنے نصاب سے اسلامی موضوعات کو خارج کر کے اسلام کو کیسے پھیلائیں گے۔ آج میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوں کے ساتھ سلوک میں ہم بھارت سے بہتر ہیں۔

متعلقہ عنوان :