گیس کی یومیہ پیداوار 4 ارب مکعب فٹ اور تیل کی پیداوار 78 ہزار بیرل سے زائد ہے‘ تیل اور گیس کانفرنس رواں ماہ ہوگی ‘ وزیر پٹرولیم

منگل 10 نومبر 2015 16:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 نومبر۔2015ء) سینٹ کوبتایاگیا ہے کہ گیس کی یومیہ پیداوار 4 ارب مکعب فٹ اور تیل کی پیداوار 78 ہزار بیرل سے زائد ہے‘ تیل اور گیس کانفرنس رواں ماہ ہوگی ‘ الیکشن کمیشن کے ممبران کی مدت اگلے سال 12 جون تک ہے‘ گریڈ 17 سے 22 تک کی خالی آسامیوں کو جلد پر کرلیا جائیگا ‘مکانات خالی کرانے کے لئے ہمارے پاس کوئی فورس نہیں‘ سٹیٹ آفیسر کو مجسٹریٹ کے اختیارات مل جائیں تو مسئلہ حل ہو جائیگا ‘دس سال کے دوران تیل اور گیس کے شعبے میں 169 لائسنس جاری کئے گئے ‘رواں سال قرعہ اندازی کے بعد 533 حج درخواستوں کے امیدواروں نے اپنی رقوم واپس لے لیں۔

منگل کو وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر کریم احمد خواجہ اور سینیٹر خالدہ پروین کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے ایوان کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے ایک ممبر کی ماہانہ تنخواہ 6 لاکھ 21 ہزار 422 روپے ہے۔

(جاری ہے)

ان ممبران کو 13 جولائی 2011ء سے پانچ سال کے عرصے کے لئے تعینات کیا گیا ہے اور ان کا عرصہ 12 جون 2016ء کو مکمل ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن میں گریڈ 17 اور گریڈ 22 میں کل 351 افسران کام کر رہے ہیں۔ خالی آسامیوں پر جلد تعیناتی کردی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں 78‘ خیبر پختونخوا میں 73‘ سندھ میں 63 اور بلوچستان میں 71 افسران کام کر رہے ہیں۔سینیٹر کریم احمد خواجہ اور جہانزیب جمالدینی کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال خان نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ملک میں گیس کی پیداوار چار ارب دس کروڑ 50 لاکھ مکعب فٹ اور تیل کی پیداوار 78 ہزار 62 بیرل یومیہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تیل و گیس کی پیداوار میں صوبوں کو دی جانے والی رائلٹی 12.5 فیصد کے حساب سے ویل ہیڈ پرائس سے دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں ماہ تیل وگیس کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں صوبوں کے ساتھ ساتھ اس شعبے سے متعلقہ افراد کو مدعو کیا جائے گا۔ کانفرنس میں سرمایہ کاری اور ریگولیٹری امور بھی زیر غور آئیں گے۔وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے سینیٹر خالدہ پروین‘ عتیق شیخ اور شاہی سید کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت 116 ریٹائرڈ سرکاری ملازمین سرکاری گھروں پر قابض ہیں‘ ہمارے پاس مکان خالی کرانے کے لئے کوئی فورس نہیں ہے‘ بعض پولیس اہلکاروں نے بھی مکانوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

بعض اوقات مجسٹریٹ بھی مکان خالی کرانے کے لئے دستیاب نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی مدد کے بغیر مکانات خالی کرانا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے تجویز دی ہے کہ سٹیٹ آفیسر کو اگر مجسٹریٹ کے اختیارات مل جائیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری مکانات پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں سے حکم امتناعی کی وجہ سے بھی مکان خالی کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔

حکم امتناعی لینے والے سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں جبکہ ہم زیادہ فیس پر وکیل نہیں رکھ سکتے۔ اس معاملے کے لئے بھی قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔ وقفہ سوالات کے دوران ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال خان نے بتایا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن نوابشاہ تک بچھائی جائے گی‘ بلوچستان کو ٹرانزٹ فیس کی ادائیگی کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن نوابشاہ تک جائے گی‘ پائپ لائن کے ڈیزائن میں گیس کی فراہمی کے لئے پائپ لائن کے مکمل روٹ پر نو آف ٹیک پوائنٹس کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ رائلٹی قانون کی مناسبت سے دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ٹرانزٹ فیس کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس منصوبے کے تحت گیس ہم چونکہ درآمد کر رہے ہیں

اس لئے رائلٹی نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ تیل اور گیس کے شعبے میں جن کمپنیوں کے پاس لائسنس موجود ہیں اور وہ کام نہیں کر رہیں انہیں نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ اب صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے ان کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کریں۔ بعض پرانی فیلڈز پر بھی دوبارہ کام شروع کرایا جائے گا۔ اجلاس کے دور ان وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کی طرف سے بتایا گیا کہ پچھلے مالی سال 30جون کے آخر تک کمپنی کا باضابطہ آڈٹ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس نے کیا اور اگست میں آڈٹ رپورٹ کو حتمی شکل دی گئی جس میں کسی قسم کی بدعنوانی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔

سینیٹر نثار محمد کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ پی ایس او کی طرف سے آئی پی پیز کو براہ راست ایل این جی فراہم نہیں کی جاتی۔ایس این جی پی ایل‘ آئی پی پیز کو ایل این جی فراہم کر رہی ہے اور اب تک 19 ارب 69 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی 16260 ایم ایم سی ایف ڈی گیس آئی پی پیز کو فراہم کی جاچکی ہے۔

سینٹ کو بتایا گیا کہ گزشتہ دس سال کے دوران تیل اور گیس کے شعبے میں 169 لائسنس جاری کئے گئے وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ پچھلے دس سالوں کے دوران تیل اور گیس کے شعبوں میں 27 نئی دریافتیں ہوئی ہیں اور تیل اور گیس کی تلاش کے لئے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو لائسنس جاری کئے گئے۔ وزارت ہاؤسنگ کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ بھارہ کہو ہاؤسنگ سکیم میں کوٹے کی تخصیص فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن میں رجسٹرڈ کوٹے کے حوالے سے ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔

ہاؤسنگ سکیم میں وفاقی سرکاری ملازمین آئینی و پیشہ وارانہ اداروں‘ ریٹائرڈ ملازمین ‘ خودمختار اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین‘ بیواؤں‘ وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کے ملازمین اور صحافیوں کا کوٹہ موجود ہے۔ سینیٹر نزہت صادق کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت ہاؤسنگ کی طرف سے بتایا گیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین ٹو میں ڈی ٹائپ فلیٹوں کی تعمیر کا منصوبہ مختلف وجوہات کی بناء پر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔

سی ڈی اے کی طرف سے سائٹ کی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے‘ تنازعات اور انکوائریوں کی وجہ سے بھی کام تقریباً دوسال تاخیر کا شکار رہا۔ اب توقع ہے کہ یہ منصوبہ رواں سال 31 دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ سینیٹر ساجد میر کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت مذہبی امور کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ نامزد بنکوں میں سرکاری سکیم کے تحت 2 لاکھ 69 ہزار 328 حج درخواستیں موصول ہوئیں۔

قرعہ اندازی کے ذریعے 68 ہزار 100 حج درخواستوں کو کامیاب قرار دیا گیا۔ متبادل کے طور پر کل 171 حج درخواستیں موصول ہوئیں۔ سینیٹر ثمینہ عابد کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا تعمیراتی کام رواں سال اگست میں شروع ہوا اور اس کی کل لمبائی 25 کلو میٹر ہے۔ منصوبہ 6 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ اس کو جلد مکمل کیا جاسکے۔ آخری دو حصوں کے ٹینڈر جاری کرنے کا عمل ہو رہا ہے اور کنٹریکٹ توقع ہے کہ 30 نومبر تک ہو جائے گا۔

بیرسٹر عثمان ابراہیم نے کہا کہ طالب علموں سے فنڈز اکٹھا کرکے ڈیلی ویجز اساتذہ کو تنخواہ دی جارہی تھی‘ ہم نے طالب علموں سے فنڈز لینے بند کردیئے جس سے تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ پیدا ہوا کیونکہ ان اساتذہ کو بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے ڈیلی ویجز بنیاد پر تعینات کیا گیا۔ ان کے لئے بجٹ میں فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ان ڈیلی ویجز اساتذہ کی لسٹوں میں ردوبدل بھی کیا گیا ہے۔

ہم نے سکروٹنی کرکے ان ڈیلی ویجز اساتذہ کی حتمی فہرست تیار کرلی ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کے تحت بنائی گئی کمیٹی ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کرنے کے لئے کام کر رہی ہے‘ معیار پر پورا اترنے والوں کو ریگولر کیا جارہا ہے۔ اگر کمیٹی نے معیار پر پورا اترنے کے بعد ان ملازمین کو ریگولر کردیا تو ہم اس فیصلے پر عمل کریں گے۔ ہم نے اس سلسلے میں وزارت خزانہ سے فنڈز فراہم کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔

متعلقہ عنوان :