ایاز صادق 268 ووٹ لیکر دوبارہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب، شفقت محمود نے 31 ووٹ حاصل کئے

ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا ابھی تک حکومت نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا،خورشیدشاہ،ایم کیو ایم اور ایاز صادق کی کہانی ایک جیسی ہے،فاروق ستار، صاحبزادہ طارق اللہ و دیگر کا اظہار خیال

پیر 9 نومبر 2015 18:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔9 نومبر۔2015ء) پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار ایاز صادق 268 ووٹ لیکر دوبارہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے‘ ہیں۔قائم مقام سپیکر جاوید مرتضیٰ عباسی نے نو منتخب سپیکر سے عہدے کا حلف لیا۔ سپیکر کا انتخاب کے لئے ووٹنگ قومی اسمبلی میں پیر کے روز صبح 9 بجے شروع ہو کر ایک بجے تک جاری رہی۔

سپیکر کے انتخاب میں کل 300 اراکین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سردار ایاز صادق کے مخالف امیدوار پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے 31 ووٹ حاصل کئے جبکہ ایک ووٹ ضائع قرار دیا گیا۔ سپیکر کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے علی محمد خان اور مسلم لیگ ن کی جانب سے طاہرہ اورنگزیب نے پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دیئے۔ سپیکر کے انتخاب میں پریذائیڈنگ آفیسر کے فرائض سیکرٹری قومی اسمبلی نے سرانجام دیئے۔

(جاری ہے)

ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان قائم مقام سپیکر جاوید مرتضیٰ عباسی نے کیا۔ ایاز صادق کے منتخب ہونے کے اعلان کے بعد ایوان زریں شیر آیا شیر آیا کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی اراکین ایوان میں خاموش رہے۔ سردار ایاز صادق کی حمایت اپوزیشن جماعتیں‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی‘ ایم کیو ایم‘ پختونخوا عوامی ملی پارٹی‘ مسلم لیگ ق‘ جمعیت علمائے اسلام اور این پی سمیت دیگر جماعتوں نے کی جس کے نتیجے میں سردار ایاز صادق 268 ووٹ لیکر دوبارہ قومی اسمبلی سپیکر منتخب ہو گئے۔

سپیکر کے انتخاب میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ تاہم کابینہ کے متعدد اراکین نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ سپیکر کا انتخاب خوش اسلوبی سے سرانجام پایا۔ انتخاب کے وقت مہمانوں کی آمد سے گیلریاں کھچا کھچ بھر ہوئی تھیں۔ نومنتخب سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ایوان زریں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے دوبارہ منصب عطا کیا اور پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی کہ ایک ہی مدت میں دو مرتبہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میری کامیابی جمہوریت اور آئین کی فتح ہے ایاز صادق نے وزیراعظم نواز شریف‘ خورشید شاہ‘ فاروق ستار‘ مولانا فضل الرحمان‘ فاٹا اراکین‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ ق‘ عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر اراکین کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مجھے دوتہائی اکثریت سے ایوان میں کامیاب کرایا۔ ایاز صادق نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ممبران کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے مقابلے میں حصہ لیا۔

ایاز صادق نے کہا کہ اب مل کر جمہوریت اور آئین کا دفاع کرینگے۔ پورے ایوان کی مشاورت سے جمہوریت اور آئین کے دفاع کو مستحکم کرنے کے لئے اور اسے فعال بنانے کے لئے مل کر کام کرینگے۔ ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کو مشاورت کے ساتھ چلائیں گے۔ کشمیر کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں رکھ کر آگے بڑھائیں گے‘ آزادی اظہار رائے کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔

ایاز صادق نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا بہتر ساکھ دیگر ممالک میں اجاگر کرنے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بطور اپوزیشن اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کیا لیکن پارلیمنٹ میں جن اصلاحات کی ضرورت ہے انہیں بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کا وجود خوش آئند ہے لیکن الیکشن ریفارمز پر بھی غور ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان اور دیگر بڑے اہم اقدام پارلیمنٹ کے باہر ہوئے انہیں آئندہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سپیکر قومی اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا دوسری مرتبہ منتخب ہونا آپ پر اعتماد کی عکاسی ہے کیونکہ ماضی میں بھی آپ نے بطور سپیکر ایوان کو بڑے احسن طریقے سے چلایا۔

امید ہے کہ مستقبل میں بھی آپ مثبت کردار ادا کرینگے لیکن حکومت کا اب ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا ہے اور ابھی تک حکومت نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ آنے والا وقت بہت کٹھن ہو گا اس لئے محنت کی ضرورت ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایاز صادق سمیت شفقت محمود کو مقابلہ کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ایم کیو ایم اور ایاز صادق کی کہانی ایک جیسی ہے۔

ہم استعفے دے کر گئے تو آپ بھی چلے گئے۔ ہم ایوان میں آئے تو آپ بھی آ گئے۔ آج 9 نومبر علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر آپ دوبارہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جو خوش آئند ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا اب ہمیں خوداحتسابی کے عمل پر بھی غور کرنا ہو گا۔ اب ہم ملک میں اصل جمہوریت کو قائم کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ بل اسمبلی میں اس طریقے سے نہیں لائے گئے جس طرح آنے چاہئیں تھے۔

اسمبلی کے ایجنڈے کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی پالیسی سازی کے لئے ایوان زریں میں بحث نہیں ہوئی۔ 1998ء کے بعد آج تک مردم شماری نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 19 کے تحت ملک کی چوتھی بڑی جماعت ایم کیو ایم جو کالعدم نہیں ہے اس کے قائد الطاف حسین کی تقریر پر پابندی لمحہ فکریہ ہے۔ ایوان کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ جماعت اسلامی کے سینئر رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ن ایاز صادق کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار کو سپیکر کے لئے نامزد کرتی تو اس پر جماعت اسلامی ضرور سوچتی مگر ایاز صادق کی ماضی کی کارکردگی کی وجہ سے ہم نے دوبارہ مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا۔

یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے سپیکر کے الیکشن میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ 26 اکتوبر کے زلزلے کے بعد مالاکنڈ کی عوام کھلے آسمان کے نیچے ہے ایوان اس کا نوٹس لے۔ فاٹا کے رکن قومی اسمبلی جی جی جمال نے کہا کہ فاٹا کے ارکان کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سپیکر کی نشست کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاکہ فاٹا کی عوام کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔

کیونکہ قومی اسمبلی بھی مسائل کے حل کے لئے صوبائی اسمبلی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے غلام بلور نے کہا کہ سپیکر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تحریک انصاف کو چاہئے تھا کہ سپیکر کو بلامقابلہ منتخب کراتے اگر انہوں نے الیکشن لڑنا تھا تو تمام اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ خاص طور پر ایاز صادق کے ووٹ کے لئے آج قومی اسمبلی آئی ہوں جس طرح میرے حلقے میں کارروائیاں ہو رہی ہیں اس کے بعد یہاں پر آنا مناسب نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ بدین کے بلدیاتی انتخابات میں پری پول دھاندلی کے ثبوت پورے ایوان میں پیش کروں گی۔ آخر الیکشن کمیشن کہاں ہے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخاب میں اپنی کارکردگی پر نظر ثانی کرنا ہو گی تاکہ ملک کو دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ ہونے والی قانون سازی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ہونی چاہئے۔

تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اس میں نمائندگی دی جائے۔ قوم کے مسائل پر اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے۔ شفقت محمود کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مرتبہ دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ فاٹا کے رکن قومی اسمبلی عبدالقہار نے کہا کہ آئینی مسائل پر بھی ایوان میں توجہ دی جائے جو قانون لاہور کے واہگہ بارڈر پر ہے وہی قانون بلوچستان اور چمن کے بارڈر پر بھی ہونا چاہئے۔ اگر گوادر اور بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا تو پھر اقتصادری راہداری بھی نہیں ہو گا۔