مفتی محمود نے کبھی اپنے نظریات اور عقائد پر سمجھوتہ نہیں کیا‘بندوق نہیں دلیل کی سیاست ہونی چاہیے‘ ہمیں ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے‘ کچھ لوگ اپنی ذات میں تحریک اور مشن ہوتے ہیں‘ مفتی محمود کے قافلے میں شامل ساتھیوں پر فخر ہے‘ملک میں عالمی طاقتوں کی ترجیحات مسلط ہو رہی ہیں ہمیں اپنے ملک کو بین الاقوامی دباؤ سے نکالنا ہو گا‘ بند کمروں کے غلط فیصلے قبائلیوں پر مسلط کرنے کے خلاف ہیں‘1973ء کے آئین میں مفتی محمود نے اہم کردار ادا کیا‘ مفتی محمود نے کہا تھا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا جا سکتا‘ آج اس ملک کو دوبارہ اسی سوچ کی ضرورت ہے‘مفتی محمود کی قومی سیاست، جمہوریت اور جمہوری جدوجہد، آئین پاکستان کی تشکیل ، عقیدہ ختم نبوت اور نظام مصطفی کی تحریک ، دینی مدارس کی حفاظت اور دینی جماعتوں میں عقیدت و محبت پیدا کرنے کیلئے بے پناہ خدمات اور دوررس اثرات ہیں،جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ‘چیئرمین سینٹ رضا ربانی‘ جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی لیاقت بلوچ و دیگر کا بنوں ہاوٴس حیات آباد میں مفتی محمود سیمینار سے خطاب

اتوار 8 نومبر 2015 19:40

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔8نومبر۔2015ء) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ مفتی محمود نے اپنے نظریات اور عقائد پر سمجھوتہ نہیں کیا‘بندوق نہیں دلیل کی سیاست ہونی چاہیے‘ ہمیں ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے‘ کچھ لوگ اپنی ذات میں تحریک اور مشن ہوتے ہیں‘ مفتی محمود کے قافلے میں شامل ساتھیوں پر فخر ہے‘ملک میں عالمی طاقتوں کی ترجیحات مسلط ہو رہی ہیں ہمیں اپنے ملک کو بین الاقوامی دباؤ سے نکالنا ہو گا۔

بند کمروں کے غلط فیصلے قبائلیوں پر مسلط کرنے کے خلاف ہیں۔ جبکہ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں مفتی محمود نے اہم کردار ادا کیا‘ مفتی محمود نے کہا تھا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا جا سکتا‘ آج اس ملک کو دوبارہ اسی سوچ کی ضرورت ہے‘سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ مفتی محمود کی قومی سیاست، جمہوریت اور جمہوری جدوجہد، آئین پاکستان کی تشکیل ، عقیدہ ختم نبوت اور نظام مصطفی کی تحریک ، دینی مدارس کی حفاظت اور دینی جماعتوں میں عقیدت و محبت پیدا کرنے کیلئے بے پناہ خدمات اور دوررس اثرات ہیں۔

(جاری ہے)

وہ اتوار کو یہاں بنوں ہاوٴس حیات آباد میں مفتی محمود سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کو 2 سال میں مستقل آئین دیا گیا ‘ پاکستان میں 3 سال بعد پہلا مستقل آئین دیا گیا ‘ پاکستان میں آمریت آتی رہی ‘ ڈکٹیٹروں نے آئین کو موم کی ناک بنا کر رکھا ‘ آئین کی طرح 18 ویں ترمیم بھی متفقہ طور پر منظور ہوئی‘ مفتی محمود کا نظریہ آج بھی زندہ ہے ‘ جمعیت کا ہر کارکن مفتی محمود کے نظریات کو لوگوں تک پہنچاتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ مفتی محمود نے اپنے نظریات اور عقائد پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ پورے آئین پر نظر ثانی کی گئی۔ صوبوں کو اختیارات دئیے گئے۔ انہوں نے کہاکہ بندوق نہیں دلیل کی سیاست ہونی چاہیے۔ ہمیں ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے۔ کچھ لوگ اپنی ذات میں تحریک اور مشن ہوتے ہیں۔ مفتی محمود کے قافلے میں شامل ساتھیوں پر مجھے فخر ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ملک میں امن تب ہوگا جب آئین اور قانون کے مطابق چلیں گے ت تصادم کی بنیاد پر کوئی ادارہ اطمینان سے ملک کی خدمت نہیں کر سکے گا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم کسی سنجیدہ مو ضوع کو رد نہیں کرتے تصادم کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک میں عالمی طاقتوں کی ترجیحات مسلط ہو رہی ہیں ہمیں اپنے ملک کو بین الاقوامی دباؤ سے نکالنا ہو گا۔ بند کمروں کے غلط فیصلے قبائلیوں پر مسلط کرنے کے خلاف ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ قبائلیوں کو صوبوں میں ضم کرنا چاہتے ہیں تو کھل کر بات کی جائے۔

سب سے پہلے انسانیت ہوتی ہے اگر انسان ہو گا تو اس پر قانون اور آئین کا نفاذ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مستقبل اور قبائل کے مستقبل کا سوچیں کسی قوم برادری کے حق پر جبر نہیں کر سکتے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ معیشت ‘ تہذیب ‘ جمہوریت ‘ پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کو عالمی دباؤ سے آزاد رکھنا ہو گا۔ قبائل اس صوبے اور ملک کے لوگ ہیں انہیں برابری کے حقوق دئیے جائیں اور آئی ڈی پیز کو ان کے گھروں میں لے جا کر پہلے آباد کیا جائے۔

۔ اپنے خطاب میں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ماضی قریب میں ایک آمر نے آئین کو پیروں تلے روند دیا۔ آئین کو اصل شکل میں لانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ 1973ء کے آئین میں مفتی محمود نے اہم کردار ادا کیا۔ مفتی محمود نے کہا تھا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ آج اس ملک کو دوبارہ اسی سوچ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں آج ایک قوم بن کرسوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں اداروں کے درمیان روابط بڑھیں۔ آمریت کے در میں ایک ادارے کو دوسرے ادارے سے لڑایا گیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے لڑایا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام جمہوری قوتیں اختلافات بھلا کر ملک کے استحکام کیلئے کام کریں ۔ اس ضمن میں سینٹ نے پہلا قدم اٹھایا۔ آج اداروں کے درمیان ڈائیلاگ اور گفتگو کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ عالم اسلام کے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استعماری قوتیں طرح طرح سے ہمارے عقیدے اور تہذیب پر حملہ آور ہیں۔ ان قوتوں کا مقابلہ کرنے اور ان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے دینی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مفتی محمود کی قومی سیاست، جمہوریت اور جمہوری جدوجہد، آئین پاکستان کی تشکیل ، عقیدہ ختم نبوت اور نظام مصطفی کی تحریک ، دینی مدارس کی حفاظت اور دینی جماعتوں میں عقیدت و محبت پیدا کرنے کے لئے بے پناہ خدمات اور دوررس اثرات ہیں۔

مفتی محمود ایک بہادر، علم سے مالا مال اور دلیل سے بات کرنے والے تھے۔ دین کے لئے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مفتی محمود کو اپنے علم کی وجہ سے عالم اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ ان کی دینی وسیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام غالب ہوکر رہے گا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ اس وقت مدارس ، مساجد اور منبر و محراب کو ہر طرح کے خطرات درپیش ہیں۔

علماء اور دینی سیاسی قیادت کو ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر دینی جماعتیں متحد ہوں تو کوئی پاکستان کو لبرل، سیکولر اور لادین نہیں بنا سکتا ۔ دینی جماعتیں سیکولرازم کے راستے میں سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی استعمار پاکستان کی تہذیب و ثقافت اور قدار پر حملہ آور ہے۔ ان کا مقابل کرنے اور ان کو شکست فاش دینے کے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ مفتی محمود نے 1971ء کے دستور میں اسلامی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نظام مصطفی کی تحریک میں وہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ ان کی اور دینی قوتوں کی جدوجہد سے پاکستان اسلامی جمہوریہ کہلایا۔ انہوں نے علم کے اور دلیل کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں دینی بنیاد پر کام کرنے والوں کو حوصلہ عطا کیا ہے۔ بھٹو کے مقابلے میں مفتی محمود قومی اتحاد کے سربراہ بنے اور ان کی قیادت میں ایک شاندار تحریک چلی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی محمود عالم اسلام کی مقبول شخصیت تھے ۔ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔