سابق امریکی صدر جارج بش سینئرنے سوانح حیات میں بیٹے جارج ڈبلیو بش ، ڈک چینی اوررمز فیلڈ پر چڑھائی کر دی

بش سینئربڑھاپے میں سٹھیا گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ بش خود سارے فیصلے کرتے تھے، رمزفیلڈ کا شدید غم و غصہ کا اظہار

ہفتہ 7 نومبر 2015 12:53

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔7 نومبر۔2015ء) سابق امریکی صدر جارج بش سینیئر نے اپنی سوانح حیات میں اپنے بیٹے جارج ڈبلیو بش ، ان کے نائب صدر ڈک چینی اور وزیردفاع رمز فیلڈ پر چڑھائی کر دی جس پر رمزفیلڈ نے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بش سینیئربڑھاپے میں سٹھیا گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ کہ بش خود سارے فیصلے کرتے تھے۔

بش سینئر نے آئندہ ہفتے منظر عام پر آنے والی سوانح حیات میں اپنے بیٹے کے دورِ صدارت میں ان کے نائب صدر ڈکی چینی اور وزیر دفاع ڈانلڈ رمزفیلڈ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ڈک چینی اور رمزفیلڈ کی شخصیات کو بیان کرنے کے لیے جو الفاظ اس سوانح حیات میں استعمال کیے گئے ہیں ان پر رمزفیلڈ نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ ڈکی چینی نے انھیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

ان دو رہنماوٴں کے علاوہ سابق صدر اور بش سینیئر کے بیٹے جارج ڈبلیو بش نے بھی اپنے مشیروں کا دفاع کیا ہے۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بش سینیئر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مسٹر چینی اپنی ذاتی مملکت تعمیر کرنا چاہتے تھے جبکہ مسٹر رمزفیلڈ نے اپنے صدر کی ملازمت برے انداز میں کی۔اس کے علاوہ بش سینیئر نے مسٹر رمزفیلڈ کو ایک ایسا ’مغرور‘ شخص قرار دیا جو دوسروں پر ’دھونس جماتا ہے۔

ڈیسٹنی اینڈ پاور، دی امیریکن آڈیسی آف جارج ہربرٹ واکر بش‘ (مقدر اور طاقت: جارج ہربرٹ واکر بش کا طویل و دلچسپ امریکی سفر) کے عنوان سے لکھی گئی اس سوانح حیات میں دنیا کی تاریخ کے نازک ترین دور میں امریکی ایوانوں میں مختلف ممالک کے مستقبل کے بارے میں ہونے والے فیصلوں میں شامل افراد کے رویوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ سوانح جون میچم نے لکھی ہے۔

نیو یارک ٹائمز میں سوانح حیات کی اشاعت کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں جون میچم نے بش سینیئر کا ایک فقرہ نقل کیا ہے جس میں بش سینیئر کا کہنا تھاکہ رمز فیلڈ نے اس دور میں جو کچھ کیا مجھے وہ پسند نہیں ہے، اور میرا خیال ہے کہ صدر (جارج) بش کو بھی رنج ہوتا تھا کہ ہر بات پر مسٹر رمزفیلڈ کے خیالات اتنے زیادہ سخت اور دھونس پر مبنی ہوتے تھے۔

میرا خیال ہے کہ (رمزفیلڈ) میں عاجزی کی کمی ہے اور ان میں دوسرے لوگوں کے خیالات کی قدر کرنے کی صلاحیت کم ہے۔ وہ اس قسم کے آدمی ہیں جو دوسروں کو جوتے لگا کر کام کرانے کے قائل ہوتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے انھیں اپنے اس رویے کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ڈِک چینی کے بارے میں بش سینیئر کا کہنا ہے کہ وہ ان (بش سینیئر) کے دور اور ان کے بیٹے کی صدارت کے درمیانی عرصے میں بدل گئے تھے۔

نو ستمبر کے حملوں کے تناظر میں مسٹر چینی کے کردار کے بارے میں بش سینیئر کا کہنا تھا کہ ’اچانک وہ (مسٹر چینی) سخت گیر ہو گئے اور اْس ڈکِ چینی سے مختلف شخص بن گئے جو میرے ساتھ کام کیا کرتا تھا۔جون میچم سے بات کرتے ہوئے بش سینیئر کا مزید کہنا تھا کہ ڈِک چینی نہ صرف ’من مانی‘ کرتے تھے بلکہ قومی سلامتی کے معاملات میں ان کے بیٹے کی بالکل نہیں سْنتے تھے۔

سوانح حیات میں خود اپنے بیٹے کے حوالے سے بش سینیئر کا کہنا ہے کہ انھیں اکثر فکر رہتی تھی کہ ان کا بیٹا کس قسم کی نعرے بازی کر رہا ہے۔ 2002 کے صدارتی خطاب میں جارج ڈبلیو بْش نے ’برائی کے محور (ایکسس آف ایول)‘ کے جو الفاظ استعمال کیے تھے، اس حوالے سے بش سینیئر کا کہنا تھا کہ اگر آپ ان الفاظ پر غور کریں اور اس قسم کی باقی چیزوں کو دیکھیں تو میرا خیال ہے کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اس سوانح حیات پر امریکہ اور امریکہ سے باہر تمام مقتدر مغربی اخبارات میں تبصرے شائع ہوئے ہیں۔ڈانلڈ رمزفیلڈ نے اپنے بارے میں بش سینیئر کے تاثرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کی یہ بات غلط ہے کہ وہ ایک مغرور شخص ہیں۔ ان کے بقول بش سینیئر ’سٹھیا گئے ہیں۔جمعرات کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں مسٹر رمزفیلڈ نے جارج ڈبلیو بش کے زمانے میں اپنے کردار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بش سینیئر اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور اپنے بیٹے (جارج بش) کے بارے میں ان کے خیالات درست نہیں کیونکہ میرے خیال میں جارج ڈبلیو بش اپنے فیصلے خود کیا کرتے تھے۔

میں اس سلسلے میں محکمہ دفاع کی ویب سائٹ پر پڑے ہوئے ہزاروں سرکاری خطوط دکھا سکتا ہوں جن میں صدر کو محکمے کی جانب سے مشورے دیے گئے تھے۔

متعلقہ عنوان :