جو کچھ بھی کیاپاکستان کے مفاد میں کیا،مخالفین نے اقدامات کو غلط رنگ دیا جس پردکھ ہے،وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے نتیجے میں قوم کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا،میرے دور حکومت اوراب کی زندگی میں کوئی فرق نہیں، قومی خزانے سے کبھی ایک پیسہ خرچ نہیں کیا،چھوڑ کر جانے والوں پر کوئی دکھ نہیں،جانتا تھا یہ بے وفا ہیں،جن کے پاس گئے ان سے بھی بے وفائی کریں گے،ملک سے لوٹا گردی ختم کرنا ہوگی، بی بی کو بہترین سیکیورٹی فراہم کی،وہ سر باہر نہ نکالتیں تو سانحہ نہ ہوتا،مارک سیگل پیسے لے کربدنام کررہا ہے،میری فطرت نہیں کہ عورت کو دھمکی دوں،آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ و سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کی نجی ٹی وی سے گفتگو

اتوار 1 نومبر 2015 21:07

جو کچھ بھی کیاپاکستان کے مفاد میں کیا،مخالفین نے اقدامات کو غلط رنگ ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔1نومبر۔2015ء) آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ و سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی کیاپاکستان کے مفاد میں کیا،مخالفین نے اقدامات کو غلط رنگ دیا جس پردکھ ہے،وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے نتیجے میں قوم کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا،میرے دور حکومت اوراب کی زندگی میں کوئی فرق نہیں کیونکہ قومی خزانے سے کبھی ایک پیسہ خرچ نہیں کیا،چھوڑ کر جانے والوں پر کوئی دکھ نہیں،جانتا تھا یہ بے وفا ہیں،جن کے پاس گئے ان سے بھی بے وفائی کریں گے،ملک سے لوٹا گردی ختم کرنا ہوگی، بے نظیر کوبتایا تھا کہ ان کے پاکستان آنے پر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوگی مگر وہ نہ مانی،بی بی کو بہترین سیکیورٹی فراہم کی،وہ سر باہر نہ نکالتیں تو سانحہ نہ ہوتا،مارک سیگل پیسے لے کربدنام کررہا ہے،میری فطرت نہیں کہ عورت کو دھمکی دوں،بے نظیر کو بہترین سیکیورٹی فراہم کرنے والے افرادمبارک باد کے مستحق ہیں۔

(جاری ہے)

وہ اتوار کو یہاں نجی ٹی وی سے گفتگو کر رہے تھے۔ سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے کہا کہ عوام آج بھی ان کے دور کی خوشحالی کو یاد کرتے ہیں۔حکومت کے کرنے کے دوبنیادی کام یہ ہوتے ہیں کہ ایک تو عوام کوتعلیم،صحت اور روز گار فراہم کر کے غربت کا خاتمہ کرتے ہوئے خوشحال کرے اور دوسرے معیشت،زراعت اور آئی ٹی کو بہتر کر کے ملک کو ترقی یافتہ بنائے ۔

میرے دور حکومت میں قوم کے حق میں بہترین اقدامات کئے گئے مگر مخالفین نے انہیں غلط رنگ دیا جو قوم اور ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ سچ کو دبا دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بیرونی دنیا آپ کے اندرونی حالات کی بنیاد پر بہتر تعلقات استوار کرتی ہے ۔ہمارے دور میں پاکستان این الیون میں شامل تھا۔یہی وجہ تھی کہ بیرونی دنیا میں ہماری عزت کی جاتی تھی۔

مگر آج حالات یکسرمختلف ہیں،موجودہ حکومت کچھ بھی نہیں کرپائی۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قوم کو حاصل ہونے والا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔جس طریقہ سے وزیراعظم کا امریکہ میں استقبال کیا گیا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمیں نیچا دکھایا گیا ہے۔ہمارے حکمران دوسرے ممالک کے ساتھ انتہائی بلند شرح سود پر معاہدے کررہے ہیں ہمیں معاہدے کرتے وقت اپنا مفاد مد نظررکھنا چاہئیے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پروجیکٹس مہنگے پڑ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی، منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی سے ان کے اچھے تعلقات رہے ہیں مگر نریندر مودی کا مسئلہ ہے۔ان کے دور حکومت میں وہاں مسلمانوں کے حالات سب سے زیادہ پریشان کن ہیں۔2000سے زائد افراد کے قتل کے بعد اقوام متحدہ کو چاہئیے کہ وہ شیو سینا اور آر ایس ایس کو دہشت گرد تنظیمیں قراردے دے۔پاک بھارت موجودہ تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے معذرت خواہانہ حد تک نرم رویے کا مظاہرہ کیاجارہا ہے مگر دسرے طرف انتہائی سخت رویہ ہے۔

ہمیں چاہئیے کہ بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کریں۔بے نطیر قتل کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مارک سیگل پیسے لے کر مجھے انہیں اور فوج کو بدنام کررہا ہے،میری فطرت نہیں ہے کہ کسی عورت کو دھمکی دوں۔اگر وہ سچا ہے تو بے نظیر کی کتاب جس کاوہ معاون مصنف بھی تھا،اس کتاب میں ان باتوں کا ذکرکیوں نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ دوبئی میں ہونے والے مذاکرات میں طے پایا تھا کہ بے نظیر آنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی جس کے بدلے میں ان کے کیسز ختم کئے جائیں گے۔

بے نظیر کو انتخابات تک ملک میں آنے سے اس لئے منع کیا تھا کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ تھا اور ان کے وطن واپس آنے پر واقعی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوئی جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ جان سے چلی گئیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔انہیں ہر طرح سے سمجھایا تھا کہ یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔بے نظیر کو بہترین سیکیوریٹی فراہم کی تھی،وہ لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اتنی اچھی سیکیوریٹی فراہم کی۔

بی بی اگر سر گاڑی سے باہر نہ نکالتیں تو سانحہ نہ ہوتا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری سے پوچھیں کہ اپنے دور اقتدار میں مجھ پر کیس کیوں نہیں کیا؟ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میاں برادران اپنے والد کی وفات پر یہاں آکر سیاست چمکانا چاہتے تھے انہیں کہا تھا کہ وہ ضرور پاکستان آئیں مگر رسومات ادا کر کے واپس چلے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ آج پہلی مرتبہ بتا رہا ہوں کہ جب میاں برادران باہر تھے تو اس وقت حمزہ شہباز پاکستان میں رہ گیا تھا۔میں نے اس کا ہر طرح سے تحفظ کیا اور اس کا خیال رکھا۔یہ بات حمزہ شہباز بھی جانتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں میں ایک بڑا سیاسی خلا ہے، ہماری کوشش ہے کہ ایک تشخص اور پہچان سے کام کر کے اس خلا کو پرکیاجائے۔اس حوالے سے کام ہورہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ صدر رہ چکے ہیں اور ان پر کئی مرتبہ جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔اس لئے ان کی جان کو خطرہ ہے تاہم وہ دی گئی سیکیوریٹی سے مطمئن ہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کو چھوڑ کر جانے والوں پر دکھ ہوتا ہے ،انہوں نے کہا کہ میں جانتا تھا کہ یہ لوگ بے وفا ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوٹا گردی ہے اور ہمیں انہی لوگوں کو ساتھ ملا کر چلنا ہوتا ہے۔

بے وفا لوگ بے وفا ہوتے ہیں،ہمیں چھوڑ کر جانے والے جن کے پاس گئے ہیں کل ان کے ساتھ بھی بے وفائی کریں گے،ہمیں اس کا کوئی دکھ نہیں،ہمیں نظام بدلنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اپنے دور اقتدار میں کبھی انہوں نے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا اس لئے وہ تب اور اب کے دور میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ تب کام زیادہ تھا اور اب لوگ زیادہ ملنے آتے ہیں۔