اسلام میں عورت کیلئے چہرہ کا ڈھاپنا مستحب نہیں بلکہ اس کا کھلا رکھنا واجب ہے،ڈاکٹر اسلم خاکی کا دعویٰ

نوخیز بچوں کیلئے الگ الگ تعلیمی اداروں کی تجویزاچھی ہے مگر پوسٹ گریجویٹ سطح پر مخلوط تعلیم ہی ہونا چاہئے اسلام مخلوط تعلیم اور اداروں کاقائل ہے،اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں پر تبصرہ

منگل 20 اکتوبر 2015 19:38

اسلام میں عورت کیلئے چہرہ کا ڈھاپنا مستحب نہیں بلکہ اس کا کھلا رکھنا ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20 اکتوبر۔2015ء) وفاقی شرعی عدالت کے فقہی مشیر اوراسلامی قانون کے استاد ڈاکٹر محمد اسلم خاکی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام میں عورت کیلئے باہرنکلتے وقت چہرہ کا ڈھاپنا مستحب نہیں بلکہ اس کا کھلا رکھنا واجب ہے اور کہا ہے کہ نوخیز بچوں کیلئے الگ الگ تعلیمی اداروں کی تجویز مصلحت عامہ میں اچھی ہے مگر پوسٹ گریجویٹ سطح پر اِسے آداب اور احتیاط کے ساتھ مخلوط ہی ہونا چاہئے اسلام مخلوط تعلیم اور اداروں کاقائل ہے۔

وہ منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک تازہ قرارداد پر تبصرہ کر رہے تھے جس میں کونسل نے قرار دیا ہے کہ اسلام میں چہرہ کا ڈھاپنا مستحب ہے واجب نہیں۔ڈاکٹر خاکی نے کہا کہ قرآن اور معتبر احادیث عورت کو معاشرہ میں نکلتے وقت چہرہ کے کھلا رکھنے کی اس لئے تاکید کرتی ہیں تاکہ وہ پہچانی جائیں کہ وہ مشکوک اورناپسندید ہ کردار والی عورتیں نہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورتوں کے لئے لباس کے تعین کے لئے اسلام نے تین بنیادی پابندیاں عائد کی ہیں جن میں عام ستر کے علاوہ چادر کے پلو سے اپنے سینے کو ڈھانپ لیں۔ باہر نکلتے وقت کوئی ایسا لباس یا زیور نہ پہنیں یاکام نہ کریں جس سے مردوں کو ان کے لئے دلکشی (زینت ) محسوس ہو۔اور تیسری یہ کہ آپس میں بات یا سامنا کرتے ہوئے نظروں کو حیا دار عام عرف میں نیچی کرلیں ۔

جس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کا چہرہ کھُلا ہو گا ورنہ مرد نگاہیں کیوں نیچی کر لیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت بھی قابل غور ہے جسمیں ان کے ہاں ایک لڑکی کا لباس دیکھ کر آپ ؐ نے فرمایا کہ نوجوان لڑکی کے لئے یہ جائز نہیں کہ اُ س کے چہرہ اور ہاتھ کے علاوہ کوئی جسم کا حصّہ ظاہر ہو ۔ڈاکٹر خاکی نے کہا کہ عورت کے چہرہ ڈھاپنے سے معاشرہ میں اُسکی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔

جس سے اگر کوئی عورت مرضی سے کسی مرد کے ساتھ میل جول اور گھومنا پھرنا چاہے تو عدم پہچان کی وجہ سے معاشرہ اوراُس کے محرم رشتہ داروں کی نگرانی ختم ہو جاتی ہے۔ نیز اگر ایک شریف عورت بس سٹاپ پر یا کسی جگہ پر چہرہ چھپانے والا پردہ کر کے ٹھہری ہے تو اوباش لوگ اُس کے پاس آ کر اُسے مشکوک سمجھ کراُسے ہراساں کرتے ہیں۔ہمارے ہاں اور بالخصوص یورپی ممالک میں جہاں دہشت گردی عروج پر ہے دھشت گرد مرد اس پردہ کی تقدس کی آڑ میں دہشت گردی کرتے ہیں ۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان حالات میں عورتوں کیلئے چہرہ کو کھلا رکھنا شرعی قانونی اور مفادِ عامہ میں واجب ہے۔نظریاتی کونسل کی اس رائے پر کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے علیحدہ علیحدہ تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں ، ڈاکٹر خاکی نے کہا کہ نوخیز عمرکے بچوں کیلئے یہ تجویز مصلحت عامہ میں اچھی ہے مگر پوسٹ گریجویٹ سطح پر اِسے آداب اور احتیاط کے ساتھ مخلوط ہی ہونا چاہئے اسلام مخلوط تعلیم اور اداروں کاقائل ہے۔

آنحضرت ؐ اور صحابہ کے دور میں مساجد میں عورتیں اورمرد اکٹھے ہی نماز پڑھتے تھے ۔ درس اور تدریس اکٹھے ہوتا تھا ۔ کیا علماء بتا سکتے ہیں کہ صحابہ یا آنحضرتؐ کے دور میں خواتیں کے لیے کوئی علیحدہ مدرستہ البنات یا علیحدہ مسجد تھی۔ انھوں نے کہا کہ نئے دور میں مرد اور عورت کا اختلاط ا ب صرف تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ملازمت اور کاروبار کی سطح پر آ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ممانعات کی بجائے بات چیت اور میل جول کے آداب، کام کرنے کے حالات اور تربیت پر زور دیاجائے۔

متعلقہ عنوان :