پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سپرماڈل ایان علی سے پکڑی گئی کرنسی اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے کا حکم،شفاف انداز میں کیس کی پیروی کی ہدایت

1998ء سے 2005ء تک پکڑی گئی 205 گاڑیوں کی نیلامی اور ان پر مقدمات کی تفصیلات طلب ٹمپرڈ گاڑیوں کی عام نیلامی نہیں کی جاتی سرکاری محکموں کوخط لکھے جاتے ہیں وہ نہ لیں تو کاٹ کر اسکریپ میں فروخت کیا جاتا ہے،کمیٹی کا بریفنگ

منگل 6 اکتوبر 2015 21:44

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سپرماڈل ایان علی سے پکڑی گئی کرنسی اسٹیٹ بینک ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 اکتوبر۔2015ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپرماڈل ایان علی سے پکڑی گئی کرنسی اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے شفاف انداز میں کیس کی پیروی کی ہدایت کی ہے اور1998ء سے 2005ء تک پکڑی گئی 205 گاڑیوں کی نیلامی اور ان پر مقدمات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں جبکہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹمپرڈ گاڑیوں کی عام نیلامی نہیں کی جاتی بلکہ سرکاری محکموں کو نیلامی کے خطوط ارسال کئے جاتے ہیں، اگر کوئی سرکاری محکمہ یہ گاڑیاں نہ خریدے تو انہیں کاٹ کر اسکریپ میں فروخت کیا جاتا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کویہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایف بی آر کے 2010ء اور 2011ء کے مختلف آڈٹ پیراز کو نمٹایا گیا۔

(جاری ہے)

چیئرمین نے نظامت اعلیٰ آڈٹ کسٹم و پٹرولیم لاہور کی جانب سے نیلام کی گئی گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ کمیٹی نے ایک ارب 39 کروڑ 86 لاکھ روپے کی بینک گارنٹی کی نان انکیشمنٹ کے معاملہ پر محکمانہ آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) کے دوبارہ انعقاد کا حکم دیا۔

ایف بی آر اور آڈیٹر جنرل کے اعداد و شمار میں واضح فرق پایا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے آڈیٹر جنرل سے کہا کہ وہ اس کی تحقیقات کرائیں۔ اگر آڈٹ یا ایف بی آر کی غلطی ہے تو پارلیمنٹ کو سخت کارروائی کی سفارش کی جائے گی۔ ڈاکٹر عارف علوی کے سوال پر ایف بی آر کے محکمہ کسٹم کے حکام نے بتایا کہ محکمہ ایان علی کے کیس میں اپنا موقف تب پیش کرے گا جب عدالت طلب کرے گی۔

ابھی تک ان کا چالان بھی پیش نہیں کیا گیا، ان سے بازیاب ہونے والی رقم جمع ہے۔ کمیٹی نے پکڑی گئی فارن کرنسی اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ایان علی کے کیس کی پیروی شفاف انداز میں کی جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پکڑی گئی ٹمپرڈ گاڑیوں کے حوالے سے یہ پالیسی ہے کہ ان کو توڑ پھوڑ کر سکریپ کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے تاہم نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی نیلامی کی جاتی ہے۔

آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ کسٹم کے اندر یہ طریقہ کار ہے۔ ٹمپرڈ گاڑیوں کو اپنے رشتہ داروں کو استعمال کے لئے دیئے جانے کے حوالے سے خواجہ شفقت نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ ادارے کے پاس نان کسٹم اور ٹمپرڈ گاڑیوں کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔ چیئرمین نے کہا کہ کسٹم کی جانب سے نیلام کی گئی گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں جن میں ان کے ماڈل اور نیلامی کی رقم شامل ہو۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2012ء میں ایمنسٹی اسکیم کے تحت 50 ہزار سے زائد نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی۔ کسٹم کی جانب سے گزشتہ سال 20 ارب روپے کی اسمگلنگ کی اشیاء پکڑی گئیں۔ منی لانڈرنگ کا کیس بھی کسٹم ایکٹ کے تحت ہی ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ تمام محکموں سے زیادہ ہم نے اپنے ملازمین کے خلاف کارروائی کی ہے۔ افسران کے گوشوارے اور اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر کارروائی کی گئی۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایسی شکایات ہیں کہ ایئرپورٹ پر اگر اپنے بیگز میں نقدی رکھیں تو وہ یہاں ہی نکال لی جاتی ہے۔ کمیٹی نے چھ لاکھ میں نیلام ہونے والی ٹیوٹا سرف گاڑی کی تفصیل طلب کی۔ چیئرمین کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ایسے احکامات جاریں کریں کہ ڈی اے سی میں کم از کم ڈی جی کی سطح کے آفیسر شریک ہوں۔ چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ 1998ء سے 2005ء تک پکڑی گئی 205 گاڑیوں کی نیلامی اور ان پر مقدمات کی تفصیلات دی جائیں۔

آڈیٹر جنرل حکام نے کہا کہ جن جگہوں پر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اس کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ایک سال میں گاڑی تباہ ہو جاتی ہے اس لئے اس کو جلد نیلام کر دیا جانا چاہئے۔ چیئرمین پی اے سی نے بھی اس کی تائید کی۔ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ چین سے ڈی ڈی آئی کا آغاز یکم جنوری 2016ء سے ہوگا۔ افغانستان سے بھی اس کے خواہشمند ہیں۔ دبئی سے آنے والے کنٹینروں کے ساتھ اگر انوائس نہ ہوئی تو 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوگا۔

ڈی جی آڈٹ فاروق الحسن نے کہا کہ ایف بی آر کے ڈیجیٹل ریکارڈ تک ہمیں رسائی نہیں دی جا رہی۔ ایف بی آر کسی قانون کے تحت ریکارڈ نہیں روک سکتا۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پی اے سی کے تحریری احکامات کی روشنی میں وہ خود آڈیٹر جنرل کے پاس گئے اور طریقہ کار کا جائزہ لیا۔ آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ یہ فیصلہ کرنا میرا آئینی حق ہے کہ کیا آڈٹ کرنا ہے۔

ہم 3 فیلڈ (نام، شناختی کارڈ نمبر اور پیشہ) کے ساتھ آڈٹ کرتے ہیں۔ ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ اگر 9 لاکھ کا ڈیٹا دیں گے تو میرے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے۔ اب 6 فیلڈ ملتی ہیں جس میں این ٹی این اور آمدن شامل ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے بتایا کہ اگر 100 فیصد ڈیٹا آڈیٹر جنرل کو چاہئے تو دینے کو تیار ہیں۔ عاشق گوپانگ نے کہا کہ آڈیٹر جنرل ہمیں جوابدہ ہیں، وہ جو ڈیٹا لکھ کر بھیجیں گے وہی فراہم کیا جائے گا۔اجلاس میں کمیٹی کے اراکین محمود خان اچکزئی، راجہ جاوید اخلاص، رانا افضال حسین، ڈاکٹر عارف علوی، ڈاکٹر عذرا فضل، سردار عاشق حسین گوپانگ، جنید انور چوہدری، خواجہ شفقت محمود، شاہدہ اختر علی اور شیخ رشید احمد نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :