نیب نے اب تک 264.4 ارب روپے کی لوٹی گئی رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی‘ گذشتہ ایک سال کے دوران18.831 ارب روپے وصول کئے گئے‘ 2014میں نیب کو 40077درخواستیں موصول ہوئیں جو کہ2013میں وصول ہونے والی 19900سے دو گنا ہیں ، نیب نے گزشتہ سال585انکوائریز کو مکمل کیا، 188 کیسز کو نمٹایا‘ احتساب عدالتوں میں208ریفرنس فائل کئے، چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کا انگلش سپیکنگ یونین کی تقریب سے خطاب

ہفتہ 19 ستمبر 2015 23:57

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19ستمبر۔2015ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ نیب نے اب تک 264.4 ارب روپے کی لوٹی گئی رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی‘ گذشتہ ایک سال کے دوران18.831 ارب روپے وصول کئے گئے‘ 2014میں نیب کو 40077درخواستیں موصول ہوئیں جو کہ2013میں وصول ہونے والی 19900سے دو گنا ہیں جو کہ ادارے پر عوام کے اعتماد اظہار ہے‘ نیب نے2014 میں585انکوائریاں مکمل کیں جبکہ 2013میں یہ تعداد صرف243تھی جبکہ سال2014میں 188 کیسز کو نمٹا دیا گیا‘2013میں یہ تعداد129تھی‘2014میں نیب کی طرف سے احتساب عدالتوں میں208ریفرنس فائل کئے گئے جبکہ2013میں یہ تعداد135تھی۔

اسی طرح پلی بار گینگ کے تحت 2014 میں نیب نے 13.423ارب روپے کی ریکوری کی۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کو یہاں مقامی ہوٹل میں انگلش سپیکنگ یونین کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انگلش سپیکنگ یونین کے صدر شاہد حامد‘جنرل سیکرٹری خالد شفیق اور دیگر اس موقع پر موجود تھے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ کرپشن کے خاتمہ کیلئے قانون کی حکمرانی، شفافیت، ذمہ داری اور احتساب کو فروغ دینا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، نیب کرپشن کے خاتمہ کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، کرپشن کے خاتمہ کیلئے ہمیں متحد ہو کر جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔

چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا کہ شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے جیسے افلاس زدہ لوگوں کیلئے خوراک، بے گھروں کیلئے پناہ گاہیں، بیماروں کیلئے صحت کی سہولیات، تمام بچوں کیلئے تعلیم کی فراہمی، نوجوانوں کیلئے ملازمتیں اور سماجی و اقتصادی بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہے، ان سہولیات اور بنیادی حقوق کی فراہمی پر رقم، وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، ایسی قیمتی اشیاء کا جان بوجھ کر نقصان پہنچانا اور بدنیتی رکھنا کرپشن کہلاتا ہے۔

اس پر غیر مشروط اتفاق رائے ہے کہ کرپشن معاشی شرح نمو اور سماجی ترقی کیلئے نقصان دہ ہے، عوام کی محنت سے کمائی گئی رقم کرپشن کے ذریعہ نٓظام سے نکالنے سے عوام کو ضروری خدمات کی فراہمی اور ان کا معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کرپشن کو زہر قرار دیا جس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے تاہم افسوس ہے کہ ان کے فرمودات پر درست انداز میں توجہ نہیں دی گئی، بدقسمتی سے قانون پر عمل درآمد میں کمزوری، انصاف اور احتساب کی کمی کی وجہ سے کرپشن طرز زندگی بن چکی ہے، کرپشن اور غربت ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت میں کرپشن سے ترقیاتی پروگراموں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، عوامی اثاثوں کی تعمیر و مرمت کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں مختلف سطحوں پر کرپشن پھیل چکی ہے، کرپشن اچھے نظم و نسق کیلئے تباہ کن ہے، اچھے نظم و نسق کے ذریعہ کارکردگی، پیداوار اور معیار زندگی کو کم قیمت پر زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اگر کرپشن پر بروقت قابو نہیں پایا جاتا تو اچھے نظم و نسق اور ترقی کیلئے کوششیں بے معنی ہیں، کرپشن کے ایک فعل سے کرپشن کی کئی راہیں کھلتی ہیں۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ اچھے نظم و نسق کا مطلب ہے کہ حکام کو پبلک فنڈز کو شفاف طریقہ سے استعمال کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے اور قومی خزانہ سے استعمال ہونے والے ہر ایک روپے کا حساب دینا چاہئے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب جامعیت، شرکت، قانون کی حکمرانی، شفافیت، ذمہ داری اور احتساب کو معاشرے میں فروغ دیں۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن ایسا ناسور ہے جس سے لوگوں میں ناامیدی، مایوسی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو اپنے بنیادی حق کے حصول کیلئے ہر جگہ کرپشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کا ہر فرد اقرباء پروری کی مذمت کرتا ہے تاہم وہ خود اقربا پروری کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کرپشن کے خاتمہ کیلئے سخت قواعد و ضوابط اور زیر ٹالرنس پر عمل پیرا ہے، گذشتہ سال کے دوران نیب کے تمام افسران نے اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے سخت محنت کی ہے، نیب میں مئی 2011ء تک زیر التواء مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کیلئے ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کی گئی ہے، کمیٹی نے اب تک 285 مقدمات میں سے 230 مقدمات نمٹا دیئے ہیں جبکہ باقی 55 مقدمات میں سے 25 عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جبکہ دیگر مقدمات جو زیر التواء اور تاخیر کا شکار ہیں، ان کو نمٹانے کیلئے 30 جون 2015ء کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی تھی ان میں سے 70 سے 80 فیصد زیر التواء انکوائریوں اور انویسٹی گیشن کو نمٹا دیا گیا ہے جبکہ کوئی شکایات کی جانچ پڑتال زیر التواء نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب افسران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں جس کا مقصد شفاف، غیر متعصبانہ، مربوط تحقیقات اور فیصلے کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پلڈاٹ کی 2014ء میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 42 فیصد لوگ نیب، 29 فیصد پولیس اور 26 فیصد سرکاری افسران پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ تمہیدی بیان اور رضا کارانہ واپسی کے ذریعہ لوگوں سے رقم وصول کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے اس کیلئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ابتدائی بیان کے دوران اگر ملزم راضی ہو تو نیب لوٹی گئی رقم کی واپسی پر زور دیتا ہے اسی طرح رضا کارانہ واپسی کے ذریعہ اگر ملزم لوٹی گئی رقم بمعہ سود قانون کے مطابق واپس کرنے پر رضا مند ہے، نیب اس کا جائزہ لے کر ایگزیکٹو بورڈ اور چیئرمین نیب کی منظوری سے رضا کارانہ رقم کی واپسی کی اجازت دیتا ہے ا گر رقم واپسی کی پیشکش اطمینان بخش نہیں ہے تو اسے مسترد کر دیا جاتا ہے تاہم اگر مقدمہ انویسٹی گیشن مرحلہ پر ہو تو لوٹی گئی رقم کی واپسی کو پلی بارگین کا نام دیا جاتا ہے، پلی بارگین احتساب عدالت کی منظوری سے مشروط ہے، ملزم رقم بمعہ سود تین اقساط میں ادا کرتا ہے۔

نیب شرح نمو، سرمایہ کاری اور سماجی استحکام کیلئے اعلی درجہ کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب ملک سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے آگہی اور قانون پر عمل درآمد کو فروغ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کو پہلی بار نظم و نسق کے تناظر میں ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے، پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے 11ویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں کرپشن کے خاتمہ کو شامل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خاتمہ کیلئے ہمیں متحد ہو کر جنگ لڑنی ہے، کرپشن کے خاتمہ کیلئے ہمیں مضبوط سیاسی عزم اور ایماندار افسران کی ضرورت ہے جو بلاخوف و خطر اپنے فرائض سرانجام دیں۔ انہوں نے دانشوروں اور میڈیا پر زور دیا کہ وہ معاشرے میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے آگہی سے متعلق اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے، یہ میرا وعدہ اور مشن ہے۔

متعلقہ عنوان :