زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی ،سمگلنگ میں اضافہ ، گوشت مہنگا ہو گیا

پیر 24 اگست 2015 15:34

کراچی( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 اگست۔2015ء) زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی کی وجہ سے ان جانورں کی اسمگلنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔یہ جانور ایران ، افغانستان ،متحدہ عرب امارات اوردیگر خلیجی ممالک کو اسمگل کئے جا رہے ہیں۔حب اور کوئٹہ میں اسمگل کئے جانے والے جانور جمع ہوتے ہیں اور وہاں سے ایران اور افغانستان میں مختلف راستوں سے پہنچا دئیے جاتے ہیں ۔

بلوچستان سے منسلک ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر واقع مختلف مقامات خصوصاً 250 مند اور چمن سے ماہانہ 15000 جانوروں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے ۔ ان کی مالیت تقریباً ساڑھے سات لاکھ ڈالر ز بنتی ہے ۔اس وجہ سے پاکستان میں نہ صرف گوشت مہنگا ہو گیا ہے بلکہ حکومت پاکستان کو ٹیکسوں کی مد میں بھی بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے ۔

(جاری ہے)

وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ یہ پابندی ختم کی جائے۔

وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے لائیو اسٹاک ونگ کے انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ مذکورہ وزارت کے لائیواسٹاک ونگ نے زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی کے دو سالوں کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کردی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زندہ جانوروں کی برآمدپر پابندی کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانوروں کی ایران، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں کو اسمگلنگ میں اضافہ ہوگیا ہے اور حکومت پاکستان کو کئی ملین ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، جو قانونی برآمد کی صورت میں اسے وصول ہوتے تھے۔

لائیو اسٹاک ونگ نے اپنی رپورٹ میں اس بات کو واضح کیا ہے حب اور کو ئٹہ کے راستوں سے ماہانہ ساڑھے سات لاکھ ڈالر کے 15000ہزار جانور اسمگل ہو رہے ہیں ۔اسمگلنگ کے لئے خریدے جانے والے جانور کیونکہ کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی ادا نہیں کرتے اس لئے اسمگلر انہیں رحیم یار خان ، بہاولپور اور ملتان کی منڈیوں سے 400روپے فی کلوگرام کے حساب سے 4من کا جانور 64000روپے یا اس سے زائد میں خریدتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں گوشت کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ زندہ جانوروں کی برآمد سے پاکستان میں پروسیسنگ کے لیے چمڑا دستیاب نہیں ہوگا۔ پاکستان میں قربانی کی عید جمع ہونے والے چمڑے کو ابھی تک پروسیس نہیں کیا جاسکا۔ جبکہ روزانہ کی بنیاد پر پورے ملک میں لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ مقامی صنعتوں کے لیے جانوروں کی ہڈیاں، خون اور دیگر اشیاء بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔

واضح رہے کہ کابینہ کے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے 31 جولائی 2013ء کو زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی عاید کردی تھی۔ یہ پابندی یکم اکتوبر 2013ء سے نافذ کی گئی تھی۔ پابندی لگانے کا جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ زندہ جانوروں کی برآمدگی سے ملک میں گوشت کی قلت پیدا ہورہی ہے اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی سے گوشت، اس کی پروڈکشن، پروسیس کیا ہوا چمڑا وغیرہ برآمد کرکے زیادہ زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ مقامی صنعتوں کو جانوروں کی ہڈیاں، خون اور خام چمڑا بھی فراہم کیا جاسکے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں کیونکہ گوشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس سے وہ زرمبادلہ نہیں کمایا جاسکتا ہے جس کی توقع تھی۔ رپورٹ میں پابندی سے پہلے اور بعد کے اعداد وشمار دیئے گئے ہیں، جن کے مطابق مارچ 2009ء سے پابندی تک چار سالوں میں 725000 مویشی اور 232424 بھیڑیں/ بکریاں برآمد کی گئیں، جبکہ اسی عرصے میں 45000 ٹن سے زیادہ گوشت برآمد کیا گیا لیکن پابندی کے بعد گوشت کی برآمد سے اتنا زرمبادلہ نہیں کمایا جاسکا، جتنا پابندی سے پہلے کمایا جاتا تھا۔

پاکستان سے گوشت کی برآمد مسلسل کم ہورہی ہے کیونکہ دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک سے گوشت کی برآمد میں اضافہ ہوگیا۔ ایران، افغانستان اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر قریبی ممالک زندہ جانوروں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ لہٰذا ان حقائق کی روشنی میں زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو، حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں بڑی رقم وصول ہو اور پاکستان میں لائیواسٹاک فارمنگ کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔