سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن کی انکوائری کمیٹی نے 2008میں کراچی سٹاک مارکیٹ میں پیدا ہونے والے بحران بارے رپورٹ پیش کردی،رپورٹ میں1400ارب روپے کے سکینڈل کی نہ توکسی پرذمہ داری عائدکی گئی نہ ہی کسی رازسے پردہ اٹھایا گیا

منگل 11 اگست 2015 23:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 اگست۔2015ء) سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن کی انکوائری کمیٹی نے 2008میں کراچی سٹاک مارکیٹ میں پیدا ہونے والے بحران بارے سات سال بعد پیش کی گئی رپورٹ میں1400ارب روپے کے سکینڈل کی نہ توکسی پرذمہ داری عائدکی جبکہ نہ ہی کسی رازسے پردہ اٹھایابلکہ عمومی نوعیت کی وجوہات بیان کرنے اورمستقبل میں ایسے بحرانوں کوروکنے کیلئے چندسفارشات پیش کردیں، کمیٹی نے کہاکہ سٹاک ایکسچینج میں ایڈ ہاک پالیسیوں ، من مانے فیصلوں اور سٹاک مارکیٹ کے رسک مینجمنٹ سسٹم میں تبدیلیوں کے باعث2008کابحران پیداہوا ،ایس ای سی پی اور سٹاک مارکیٹوں کو ریگولیٹری سسٹم میں اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت ہے، چئیرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی نے کہا کہ کمیٹی کی جانب سے تجویز کی گئی 90فیصد اصلاحات پر پہلے ہی عمل درآمد ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

منگل کے روزسیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2008میں سٹاک مارکیٹ میں پیدا ہونے والے بحران پر خصوصی کمیٹی کی جائزہ رپورٹ کمیشن کے پالیسی بورڈ میں پیش کر دی ہے ۔ پالیسی بورڈکے چئیرمین اور سیکٹری خزانہ وقار مسعود کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیپیٹل مارکیٹ میں کی جانے والی حالیہ اصلاحات کا بھی جائزہ کیا گیا۔ پالیسی بورڈ کے آئندہ اجلاس میں خصوصی کمیٹی کی رپورٹ پر تفصیل سے غور کیا جائے گا۔

ایس ای سی پی کے سابق چئیرمین شمیم احمد خان کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ جون 2015 میں کمیشن کو جمع کروا ئی تھی۔ کمیٹی کی جامع رپورٹ میں 2008میں کراچی سٹاک مارکیٹ میں پیدا ہونے والے بحران کی وجوہات ‘ اسباب اور مرتب ہونے والے اثرات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جس کے مطابق 2008میں کمیشن کے فیصلے کمشنروں کی باہمی مشاورت سے نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بحران پیدا ہوا، مزید برآں ٹریڈنگ سسٹم کی خامیوں نے بھی بحران میں کردار ادا کیا۔

رپورٹ میں ایس ای سی پی اور فرنٹ لائن ریگولیٹری اداروں کوجس میں کراچی اسٹاک ایکسچینج، سنٹرل ڈیپازٹری کمپنی اور نیشنل کلیئرنگ کمپنی میں اختیارات سے تجاوز اور رسک مینجمنٹ سے متعلق پالیسیوں میں بار ہا تبدیلیوں پرنکتہ چینی کی گئی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں 2008میں سٹاک مارکیٹ میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات اور تجربات کا جائزہ لیتے ہوئے ایس ای سی پی ، سٹاک ایکس چینجز، سنٹرل ڈیپازٹری کمپنی اور نیشنل کلیئرنگ کمپنی کے نظام میں بہتری لانے کے لئے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایس ای سی پی اپنی پالیسی میں واضح طور پر ان حالات کوبیان کرے جن میں بطور ریگولیٹر اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ مارکیٹ میں مداخلت کرسکے۔ کمیٹی نے ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک کے مابین تعاون کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔ ایس ای سی پی کے چئیرمین ظفر حجازی نے بورڈ کو بتایا کہ کمیٹی کی جانب سے تجویز کی گئی نوے فیصد اصلاحات پر پہلے ہی عمل درآمد ہو چکا ہے جبکہ سفارش کردہ دیگر اصلاحات ایس ای سی پی کے ریفارم ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ کمیشن مکمل طور پر ایک مشاورتی باڈی کے طور پر کام کر رہا ہے اور تمام معاملات اور فیصلے کمشنروں کی باہمی مشاورت سے کیے جاتے ہیں ۔ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کے مابین تعاون کو بڑھانے کے لئے بھی مارچ 2009میں ایک میمورنڈم طے پا چکا ہے۔ نیز ایس ای سی پی نے مارکیٹ میں رسک مینجمنٹ کا ریگولر سروے کرنے کے لئے رسک ایسسمنٹ یونٹ بھی قائم کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ2008میں کراچی سٹاک اکسچینج میں پیداہونے والے مصنوعی بحران کے نتیجے میں چھوٹے سرمایہ کاروں اورسفیدپوش لوگوں کے1400ارب روپے ڈوب گئے تھے اوراس حوالے سے اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیزکانام بھی سامنے آیاتھاتاہم سات سال بعدانکوائری کمیٹی کی رپورٹ کھوداپہاڑنکلاچوہااوروہ بھی مراہواکے مترادف ہے۔

متعلقہ عنوان :