جنسی تشدد ویڈیو سکینڈل کے واقعے میں ملزمان کو انسداد دہشتگردی ایکٹ اور تعزیزات پاکستان کی سنگین دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں ہو سکتی ہیں‘ قانون ماہرین،ویڈیوز کی فرانزک لیب سے اصل ہونے کی تصدیق ہو جائے تو یہ ویڈیوز بھی بطور شہادت استعمال ہو سکتی ہیں،قانونی شہادت کے تحت پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی شہادت کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ،متاثرہ بچوں اور بچیوں کے بیانات استعمال ہو سکتے ہیں، معروف قانونی ماہرین اعظم نذیر تارڑ اورآفتاب باجوہ ایڈوکیٹ کی خصوصی گفتگو

اتوار 9 اگست 2015 23:46

جنسی تشدد ویڈیو سکینڈل کے واقعے میں ملزمان کو انسداد دہشتگردی ایکٹ ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔9 اگست۔2015ء) جنسی تشدد ویڈیو سکینڈل کے واقعے میں ملزمان کو انسداد دہشتگردی ایکٹ اور تعزیزات پاکستان کی سنگین دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں ہو سکتی ہیں ۔ معروف قانونی ماہرین اعظم نذیر تارڑ اورآفتاب باجوہ ایڈوکیٹ نے ”این این آئی“ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی ایسا واقعہ جس سے عوامی جذبات مجروح ہوں اور عوام میں خوف و ہراس پھیلے تو وہاں انسداد دہشتگردی ایکٹ کا اطلاق ہو تا ہے اور مقدمے کی کاروائی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے دائرہ کار میں آتی ہے ۔

اسی طرح بچیوں کو زیادتی کانشانہ بنانے پر تعزیزات پاکستان کی دفعہ 376کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

بچوں سے بدفعلی پر تعزیزات پاکستان کی دفعہ 377عائد ہوتی ہے جس پر جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے ۔اسی طرح قانونی ماہرین کایہ بھی کہنا ہے کہ ویڈیوز فلمیں بنانے پر اگر فرانزک لیب سے ان کے اصل ہونے کی تصدیق ہو جائے تو یہ ویڈیوز بھی بطور شہادت استعمال ہو سکتی ہیں۔

اعلی عدلیہ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کے قتل اور سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے بہیمانہ تشدد سے ہلاکت کے مقدمات میں ویڈیوز کو بطور شہادت تسلیم کر چکی ہے ۔علاوہ ازیں قانونی شہادت کے تحت پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی شہادت کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اس لئے اس مقدمے میں متاثرہ بچوں اور بچیوں کے بیانات شہادت کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :