انکوائری کے ذریعے نام کلیئر کرانے کیلئے جنرل پاشا کا حکام سے رابطہ

پیر 3 اگست 2015 14:02

انکوائری کے ذریعے نام کلیئر کرانے کیلئے جنرل پاشا کا حکام سے رابطہ

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3اگست2015ء)معلوم ہوا ہے کہ لندن پلان اور 2014ء کے حکومت مخالف دھرنوں کے حوالے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات کیلئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے انکوائرای کرانے کیلئے حکام سے رابطہ کر لیا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل پاشا نے متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے درخو ا ست کی ہے کہ اس معاملے میں انکوائری کرائی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ آیا پاکستان تحریک انصاف بنانے یا گزشتہ سال کے دھرنوں میں ان کا کوئی کردار تھا۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل پاشا سمجھتے ہیں کہ کچھ سیاست دانوں اور میڈیا کی جانب سے انہیں بدنام کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل پاشا نے خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے اور وہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے کردار کا دفاع کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔

(جاری ہے)

ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل پاشا اپنا نام کلیئر کرانا اور ان تمام افراد کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے انہیں 2014ء کے حکومت مخالف دھرنوں اور پی ٹی آئی بنانے اور اسے مضبوط کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جنرل پاشا الزام عائد کرنے والے افراد کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے جبکہ کچھ کا تعلق میڈیا سے ہے۔ پاشا پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے اپنی طاقت کا استعمال کیا اور پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان پر الزام لگا کہ انہوں نے حکومت مخالف دھرنوں کی سازش کی۔

نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر ، جو پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کے بھائی ہیں ، نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ سیاست میں نہیں تھے اور کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ تھے تو اس وقت جنرل پاشا نے کارپوریٹ سیکٹر کی شخصیات کو مدعو کیا تھا اور اس دوران انہوں نے مجھے پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے کہا تھا۔انہوں نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جنرل پاشا نے دھرنے کی حمایت کی تھی۔

کچھ ہفتے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے جنرل (ر) ظہیر اور جنرل (ر) پاشا کا نام لیا کہ وہ 2014ءکے دھرنوں کے پیچھے کردار ادا کر رہے تھے۔ وزیر دفاع کے بیان کے بعد مختلف سیاسی رہنماﺅں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ دار کا تعین کیا جائے۔ ابتدائی طور پر الطاف حسین اور جاوید ہاشمی نے یہ مطالبہ کیا لیکن اب اس مرتبہ کسی اور نے نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں پارلیمانی پارٹی کے رہنما شامل ہوں، جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ حکومت مخالف دھرنوں میں کس نے کیا کردار ادا کیا۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، جن کی جماعت پر الزام ہے کہ نواز لیگ کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ان کی جماعت غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی، نے بھی اس معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو وہ جرنیل کے خلاف حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی انکوائری کراتے۔ لیکن، حکومت نئے تنازع سے بچنے کیلئے اس طرح کی انکوائری میں دلچسپی نہیں لے رہی جو شاید سویلین اور ملٹری حکام میں بداعتمادی کا سبب بنے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو 2014ء میں مشورہ دیا گیا تھا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر کے خلاف کارروائی کریں لیکن انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا حالانکہ ان کے پاس ”ٹھوس معلومات“ تھیں کہ جنرل ظہیر حکومت مخالف سیاسی افراتفری میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ جنرل ظہیر کے برعکس، جنرل پاشا 2014ء میں ریٹائرڈ افسر تھے۔