کراچی میں گرمی سے ہلاکتیں رجہ حرارت انڈیکس کے ہوا کے کم دباؤ رفتار اور نمی کی وجہ سے 66سینٹی گریڈ تک محسوس ہونے کے باعث ہوئیں ، شہروں میں گرم حدتی جزائر کے اثرات کی وجہ سے بحیرہ عرب میں ہوا کے کم دباوء نے سمندر سے آنے والی ہوا کو شہر میں داخل ہونے سے روکا ، یہ صورتحال بھی اموات کی وجہ بنی گرمی کی لہر میں شدت سے اموات کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے، موثر احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہم کے ذریعے جانوں کے ضیاع کو بڑی حد تک روکنے کے امکانات موجود ہیں

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اﷲ کی کراچی میں گرمی کی لہر کے اسباب پر رپورٹ کے اجراء کے موقع پرپریس کانفرنس

جمعرات 30 جولائی 2015 21:12

کراچی میں گرمی سے ہلاکتیں رجہ حرارت انڈیکس کے ہوا کے کم دباؤ رفتار اور ..

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 جولائی۔2015ء ) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ، سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا ہے کہ عالمی حدت کے باعث پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں آنے والے سالوں دوران گرمی کی لہر کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے تاہم موثر احتیا طی تدابیر اور آگاہی مہم کے ذریعے جانوں کے ضیاع کو بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے۔

وہ جمعرات کویہاں وفاقی وزارت میں کراچی میں گرمی کی لہر کے اسباب پر رپورٹ کے اجراء کے موقع پرپریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ وفاقی وزیر نے کراچی میں حالیہ گرمی کی لہر کے اسباب کے متعلق کہا کہ کراچی میں حالیہ گرمی کی لہر ،جو کہ جون 17سے 24 تک رہی ، کی وجہ سے 1200سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان ہوا تھا۔اس لہر کے دوران زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 44.8سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا، لیکن درجہ حرارت انڈیکس ہوا کے کم دباو، ہوا کی رفتار اور نمی کی وجہ سے 66سینٹی گریڈ محسوس ہوا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ شہروں میں گرم حدتی جزائر کے اثرات کی وجہ سے بحیرہ عرب میں ہونے والی ہوا کے کم دباوء نے سمندر سے آنے والی ہوا کو شہر میں داخل ہونے سے روکا۔ اس دباوء کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے ملحقہ علاقے خصوصاً کراچی بری طرح متاثر ہوئے اور پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کے باعث بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں۔ انہون نے مزید کہا کہ شہروں میں گرم حدتی جزائر کے اثرات ایک ایسا رجحان ہے جس میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرمی دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں پر زیادہ حاوی ہوتی ہے۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ گرمی کی لہر کے دوران پانی اور بجلی کی قلت کے اثرات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں میں پانی اور بجلی کی قلت کے کردار پر زیادہ اعدادوشمار اور شواہد نہیں ملے۔ وفاقی وزیر مشاہد اﷲ خان نے مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے نمٹاجاسکے۔

اور گرمی کی لہر سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں ہیٹ اور ہیلتھ الرٹ وارننگ سسٹم بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس نظام میں نگرانی اور انتباہ کی سروس اور لوگوں کو گرمی کی لہر کے خطرات سے آگاہ کرنے کا سسٹم ہوگا تاکہ ایسے حالات کا بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے ۔اس رپورٹ میں اس نظام کے لیے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔

اس رپورٹ میں فیصلہ سازوں کے لیے دی گئی اہم سفارشات پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ گرمی کی لہر کے موسم کے آغاز سے پہلے افراد اور علاقائی سطح پر آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی جائے۔ تاکہ گرمی کی لہر سے بچنے کے اقدامات بروقت کیے جاسکیں، اسکولوں اور کالجوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے حوالے سے مضامین پڑھائے جائیں،سبزے میں اضافے کے لیے شجرکاری میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کیا جائے، گھروں ، چھتوں اور سڑکوں پر سورج کی روشنی منکس کرنے کے لیے سبز مٹیریل کا استعمال کیا جائے اور پارکوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے، شہری منصوبہ بندی اور قوائد وضوابط پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور عوامی مقامات پر cool eateries قائم کی جائیں، جہا ں پینے کے لیے پانی ، پنکھے اور ائیرکنڈیشنر کی سہولتیں میسر ہوں۔

اس موقع پر اس رپورٹ کی تیاری پر کام کرنے والے ماہرین موسمیات سمیت سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان چودھری، ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول اور این ڈی ایم ایے کے ترجمان احمد کمال نے بھی اس رپورٹ کی تیاری،گرکمی کی لہر کے موسمیاتی اسباب اور ایسے واقعات کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے تجاویز اورمختلف اسباب پر تفصیلی گفتگو کی۔

متعلقہ عنوان :