سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے حکومت شفاف اور منصفافہ ٹیکس اسٹرکچر لاگو کرے ،ارشد سعید حسین

ٹیکس اسٹرکچر نئے ا ور پرانے سرمایہ کاروں پر یکساں اور شفافیت اور سہولت کا حامل ہونا چاہئے،صدر امریکن بزنس کونسل

پیر 15 جون 2015 21:04

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 جون۔2015ء)مریکن بزنس کونسل پاکستان کے صدر ارشد سعید حسین کہا ہے کہ سرمایہ کاری کو بڑھانے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ شفاف اور منصفافہ ٹیکس اسٹرکچر کو لاگو کرے جو نئے ا ور پرانے سرمایہ کاروں پر یکساں عائد ہو اور شفافیت اور سہولت کا حامل ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ڈسکاؤنٹ ریٹ 42 سالہ تاریخ میں کم ترین6 فیصد کی سطح پرہے جبکہ حکومت معاشی ترقی کی رفتار بڑھانا چاہتی ہے تاہم حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 65 کے تحت فوائد سے کاروباری اداروں کو دور رکھا ہے جس سے مایوسی ہوئی ہے۔

امریکن بزنس کونسل پاکستان کے صدر ارشد سعید حسین نے کہا کہ سپر ٹیکس کے نفاذ سے کاروباری اداروں کے لیے کیش مینجمنٹ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اس کے ساتھ ہی ٹیکس ادا کرنے والوں پر ٹیکس بوجھ میں اضافے کا بھی باعث بنے گا۔

(جاری ہے)

اسی طرح لسٹڈ کمپنیاں جو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے چھ ماہ کے اندر ڈیویڈنڈ دینے میں ناکام رہتی ہیں اور ان کا سرمایہ پیڈ اپ کیپیٹل کے 100 فیصد سے زائد ہو، ان پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس تمام غیر تقسیم شدہ سرمائے پر عائد ہوگا۔

اس اقدام سے ان پر دوہرا ٹیکس لاگو ہوگا کیونکہ یہ ٹیکس اس سرمائے پر ہوگا جس پر پہلے ہی ٹیکس دیا جاچکا ہے۔اسی طرح سرمایہ کی تقسیم ڈیویڈنڈ کی صورت میں ہونے سے ان کمپنیوں کی ترقی متاثر ہوگی کیونکہ کمپنیاں اس قابل نہیں رہیں گی کہ وہ توسیع منصوبوں پر اخراجات کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں ایک فیصد کی کمی مالی سال 2018 ء تک ٹیکس ریٹ 30 فیصد تک کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

اس وقت کارپوریٹ ٹیکس پاکستان میں 32 فیصد(بینکوں پر35 فیصد) ہے۔ کارپوریٹ ریٹ دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ نان ٹیکس کمپلائنس کی لاگت میں اضافہ متوقع ہے تاہم ٹیکس نیٹ میں اضافے اور جی ڈی پی کی شرح سے ٹیکس کیلئے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ حکومت کو ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ ٹوکن جرمانے سے بڑے ٹیکس چوروں کو لگام نہیں دی جاسکتی ہے۔

امریکن بزنس کونسل (اے بی سی) نے پاور سیکٹر اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری بڑھانے اور برآمدات میں اضافے کے لیے ٹیکس مراعات اور ٹیکس چھوٹ کے اعلانات اور معاشی ترقی کے لیے دیگر اقدامات کو سراہا ہے۔تاہم پالیسی سازوں کی طرف سے ٹیکس انفرااسٹراکچر کو سادہ بنانے کیلئے فراہم کی جانے والی تجاویز پر غور نہ کئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اے بی سی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے سب سے بڑے گروپوں میں سے ایک ہے جس کے 68 ارکان ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کی اکثریت 500 فورچیون کمپنیوں کی ہے۔ ان کمپنیوں کا مختلف شعبوں جیسے صحت، مالیاتی خدمات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کیمیکل ، فرٹیلائزر، توانائی، ایف ایم سی جی، فوڈ اینڈ بیوریج، آئل اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ اے بی سی کمپنیوں کی مجموعی آمدن 3.73 ارب ڈالر ہے۔

ہر سال اے بی سی کے ارکان ٹیکسز کی مد میں بڑا حصہ حکومتی خزانے میں جمع کراتے ہیں اور گزشتہ برس 77 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں ادا کئے گئے ۔ اے بی سی کی اراکین کمپنیوں میں 34 ہزار لوگ بلاواسطہ منسلک ہیں اور ان سے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد افراد وابستہ ہیں۔ اسی طرح دس لاکھ کے قریب ایجنٹس، ڈسٹری بیوٹرز اور کنٹریکٹرز کے پاس ملازمت کرنے والے بالواسطہ روزگار ان کمپنیوں سے حاصل کررہے ہیں۔`