پاکستان جیسے غریب ملک کیلئے 17فیصد سیلز ٹیکس انتہائی تشویش ناک ہے، انجینئر رضوان اشرف

پسند نا پسند کی بنیاد پر کچھ شعبوں کو ٹیکس سے مثتنیٰ اور دیگر پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے، پولٹری مصنوعات پر ٹیکس واپس لیاجائے، صدر فیصل آباد چیمبر کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 13 جون 2015 23:11

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 جون۔2015ء) 17فیصد سیلز ٹیکس پاکستان جیسے ملک کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے جہاں 11کروڑ لوگ پہلے سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، حکومت نے پسند نا پسند کی بنیاد پر کچھ شعبوں کو ٹیکس سے مثتنیٰ قرار دیکر دوسرے شعبوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جو انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس کے ذریعے اشیائے خورونوش کو مہنگا کیا جارہا ہے ۔

اس سلسلہ میں پولٹری فیڈ پر 5فیصد سیلز ٹیکس اور سویابین میل کی درآمد پر 10فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 10فیصد سیلز ٹیکس جبکہ پولٹری فیڈ کے دیگر اجزاء پر 5فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 5سے 10فیصد ٹیکس سے مرغی کے گوشت اور انڈوں کو مہنگا اور نایاب کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت غریب آدمی کو ریلیف دینے کیلئے پولٹری کی تمام تر مصنوعات پر ہر قسم کے ٹیکس واپس لے۔

(جاری ہے)

ٹیکسائل کا شعبہ پاکستان کا زرمبادلہ کمانے والا اہم شعبہ ہے پہلے سے اعلان کردہ ٹیکسٹائل پالیسی کو ہی وفاقی بجٹ کا حصہ بنادیا گیا ہے ،وفاقی بجٹ کو عوام اور صنعت دوست بنانے کیلئے اس میں پائی جانے والی خامیوں کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار فیصل آباد چیمبر اور فیصل آباد ٹیکس فورم کے زیر اہتمام پوسٹ بجٹ سیمینار کے بعد فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجینئر رضوان اشرف نے پر ٹیکس فورم کے ماہرین کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہو ئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ٹیکس کی شرح میں اضافہ کی بجائے ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر زور دیتی رہی ہے مگر اس سلسلہ میں عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا میں ٹیکس کو معاشی ترقی کے بائی پراڈکٹ کے طور پر لیا جاتا ہے مگر پاکستان میں اسکوسورس آف انکم بنادیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ خوشحال طبقات پر براہ راست ٹیکس عائد کرنے کی بجائے بلواسطہ طور پر ٹیکس لگائے گئے ہیں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ایسے تمام ٹیکس بلآخر صارف پر ڈال دیئے جاتے ہیں اور خوشحال طبقہ سے ٹیکس وصول کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا لہٰذا حکومت کو فائلر اور نان فائلر کے چکر میں پڑے بغیر خوشحال طبقات پر براہ راست ٹیکس عائد کرنے چاہیں مزید برآں ٹیکس کے نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ سلسلہ ایف بی آر سے شروع کیا جانا چاہیے۔

اسطر ح ٹیکس کی شرح تمام طبقات کیلئے یکساں ہونی چاہیے ۔ ٹیکسٹائل پالیسی میں 5سالوں کیلئے ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے 64ارب روپے رکھے گئے ہیں اسطرح 1300ارب سالانہ کمانے والے سیکٹر کو ہر سال صرف13ارب ملیں گے جو آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ حالانکہ یہ ہی وہ شعبہ ہے جو فوری طور پر ٹیکسٹائل کی برآمدات کو دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیلز ٹیکس کو 17فیصد تک بڑھادیا گیاحالانکہ پاکستان کے معاشی حالات کے پیش نظر عام آدمی 17فیصد سیلز ٹیکس کو برداشت ہی نہیں کر سکتا۔

جی ڈی پی کی گروتھ 5.5مقرر کی گئی ہے اسکے لئے (GDP to Investment) کی شرح 22فیصد ہونی چاہیے یہ (Investment) تب پوری ہو گی جب حکومت اس کیلئے ضروری مراعات دے گی۔۔ انجینئر رضوان اشرف نے فیصل آباد چیمبر اور فیصل آباد ٹیکس فورم کے مشترکہ ڈیکلریشن کا بھی اعلان کیا جبکہ سینئر نائب صدر ندیم اللہ والا نے کہا کہ وفاقی بجٹ کے بعد پنجاب کا بھی بجٹ آگیا ہے جسمیں فیصل آباد کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے فیصل آباد سے میڑو کا پراجیکٹ ملتان منتقل کر دیا گیا ہے اس موقع پر ٹیکس فورم کے ماہرین بھی موجود تھے۔

متعلقہ عنوان :