بجٹ2015-16حکومت کے اقتصادی ویژن کی نفی کرتا ہے، کراچی چیمبر

بلاواسطہ ٹیکسوں کااضافی بوجھ موجودہ ٹیکس گزاروں بالخصوص کراچی سے تعلق رکھنے والے تاجر وصنعتکاروں پر ڈال دیا گیاہے

جمعہ 12 جون 2015 18:45

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی) نے وفاقی بجٹ2015-16کے دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ نئے وفاقی بجٹ میں زراعت، کارپوریٹ سیکٹرز اور خیبر پختونخواہ کی صنعتوں کو ریلیف توفراہم کیا گیاہے تاہم بلاواسطہ ٹیکسوں کااضافی بوجھ موجودہ ٹیکس گزاروں باالخصوص کراچی سے تعلق رکھنے والے تاجر وصنعتکاروں پر ڈال دیا گیاہے کو ملکی خزانے میں 65فیصد سے زائد ریونیو کے حصہ دار ہیں۔

کراچی چیمبر سے جاری تفصیلی تجزیے میں کہا گیاہے کہ ایس ایم ای سیکٹرملک کی جی ڈی پی میں37فیصد کا حصہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تہائی آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے مگر بدقسمتی سے وفاقی بجٹ2015-16 میں اس سیکٹر کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

(جاری ہے)

کراچی چیمبر نے ایف بی آرسے چھوٹ دینے کے اختیارات واپس لینے اور ان اختیارات کو پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس قسم کے اقدام کے ذریعے ٹیکس نظام میں موجودخامیوں اور کرپشن کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اس سلسلے میں سیلز ٹیکس ایکٹ1990کے سیکشن13میں ترمیم کی جاچکی ہے تاکہ چھوٹ دینے کے اختیارات ایف بی آر سے پارلیمنٹ کو منتقل کیے جاسکیں۔کراچی چیمبر نے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی کرتے ہوئے32فیصد کرنے، شیئرز کی سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ جبکہ اسسمنٹ پر ٹیکس کریڈٹ کی مد میں15فیصد سے 20فیصد اضافے کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے کارپورٹائزیشن میں مدد ملے گی۔

موجودہ بجٹ میں کارپوریٹ سیکٹر پر توجہ دی گئی ہے اور مختلف اصلاحی اقدامات بھی متعارف کروائے گئے ہیں تاکہ ٹیکس ریونیو کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سہولیات کی فراہمی میں مجموعی طور پر توازن برقرار رکھا جاسکے۔کے سی سی آئی نے مزید کہا ہے کہ سیلزٹیکس کے سیکشن8اے میں ترمیم کرتے ہوئے ٹیکس ڈیفالٹ کی صورت میں ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ محکمے پرڈال دیاگیاہے جو اس ترمیم سے قبل رجسٹرڈ افراد پرتھا جبکہ سیکشن13 میں ترمیم سے ایف بی آر سے چھوٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کو منتقل کرنے میں مدد ملے گی۔

کراچی چیمبر کے مطابق رعایتی ایس آر اوز کا 3سال کے عرصے میں مرحلے وار خاتمہ بھی مثبت اقدام ہے۔ موجودہ بجٹ میں132ارب روپے کی رعایتوں کوختم کیا گیاہے جس سے مالی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے مناسب سہولیا ت نہ ہونے کے باعث سبزیاں اور پھل خراب ہوجانے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے نئی صنعتوں کو 3سال ٹیکس ہالی ڈے کی اجازت دی ہے جو کولڈ چین سہولیات اور زراعت کی مصنوعات کے اسٹوریج کے لیے گودام کی سہولت مہیا کرنا چاہتیں ہیں۔

ہلال گوشت مصنوعات بنانے والی وہ کمپنیاں جو نئے پلانٹس لگانے کی خواہش مند ہیں اور 31دسمبر2016تک ہلال سرٹیفیکیشن حاصل کرلیں انہیں 4سال کے لیے چھوٹ دی گئی ہے جو ایک درست اقدام ہے۔کراچی چیمبر نے کہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں چاول کی گرتی ہوئی طلب سے متاثر ہونے والی چاول کی ملز کوریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹیکس سال 2015 میں کم ازکم چھوٹ سے برآمد کنندگان کو اچھا خاصا زرمبادلہ کمانے میں مدد ملے گی۔

زرعی مصنوعات کو ودہولڈنگ ٹیکس میں حاصل چھوٹ کے دائرہ کارکی فشریز سیکٹر تک توسیع خوش آئند ہے۔مقامی درآمد کی گئی زرعی مشنری اور آلات پر لگنے والی نان ایڈجسٹیبل سیلز ٹیکس کو 17فیصد سے 7فیصد کی سطح پر لانے سے زراعت کے شعبے میں پیداوار کوبڑھانے اور اس شعبے میں خودکار آلات کے استعمال کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ یہ تجویزکراچی چیمبر نے اپنی بجٹ تجاویز میں حکومت کوپیش کی تھی۔

زراعت کے شعبے میں درآمد کی جانے والی مشنری اور آلات پرکسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ انکم ٹیکس میں مجموعی28سے43فیصد کوکم کرکے9فیصد پر لایا گیاہے جبکہ ودہولڈنگ ٹیکس کو صفر کردیا گیاہے لیکن اس اقدام سے 80فیصدچھوٹے اور بے زمین کسانوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا ۔کراچی چیمبر نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے کراچی چیمبرکی جانب سے دی گئی زیادہ تر تجاویز کو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا باالخصوص وہ تجاویز جو سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور کسٹم کے کئی کالے قوانین کو منسوخ کرنے یا ترامیم کرنے کے سلسلے میں پیش کی گئی تھیں۔

تاجر برداری کایہ دیرینہ مطالبہ رہاہے کہ ان لینڈ ریونیو کے افسران کے صوابدیدی اختیارات میں کمی کی جائے کیونکہ اس قسم کے اختیارات کو تاجروصنعتکاروں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ایسے کالے قوانین ملک کی مجموعی ٹیکس وصولی کو بڑھانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو ایک فیصد سے بھی کم ہے۔کراچی چیمبر کے مطابق موجودہ ٹیکس گزاروں کو ریلیف فراہم کرنے اور ٹیکس نیٹ سے باہر بڑی مچھلیوں کے خلاف مربوط اقدامات کرنے کے بجائے حکومت نے ایک بارپھر بلاواسطہ ٹیکسوں جن میں جی ایس ٹی ، انکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سرفہرست ہیں پر انحصار کرتے ہوئے شرح میں اضافہ کردیا ہے۔

موجودہ بنیادی سیلز ٹیکس کو درحقیقت17فیصد سے بڑھا کر22فیصد کر دیا گیاہے کیونکہ غیر رجسٹرڈ افراد کو اشیاء فروخت کرنے پر اضافی ٹیکس کو بڑھا کر ایک فیصد سے 2فیصد کر دیا گیاہے۔ ملک بھر میں99فیصد افراد غیر رجسٹرڈہیں لہذا اس اقدام کے نتیجے میں رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں کو ہی یہ 2فیصد اضافی ٹیکس دینا پڑے گا اوراس اضافی ٹیکس کو بوجھ عام عوام، صارفین اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑے گا۔

کراچی چیمبرنے مزید کہا ہے کہ مجموعی ٹیکس میں اضافے کیے لیے تمام بینکاری لین دین اور نان فائلرزکی جانب سے جاری ہونے والے انسٹرومنٹس پر ایک نئے قسم کا ٹیکس0.6فیصد کی شرح پر نافذ کردیا گیا ہے جس کا مقصد ٹیکس وصولی کو بڑھانا ہے لیکن اس اقدام سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا بوجھ بھی رجسٹرڈ افراد پر ڈال دیا گیاہے۔

اس اقدام سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونا مشکل ہیں کیونکہ ایف بی آر ماضی میں بھی غیر رجسٹرڈ افراد کی سیلز پرٹیکس عائد کرتا رہاہے لیکن وہ نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہا۔ اس اقدام سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا اور اس کا بوجھ بھی صارفین پر ہی منتقل ہوگا۔ کے سی سی آئی کے مطابق بینکاری لین دین پر0.6فیصد ٹیکس کے نفاذ کا انجام بھی وہی ہونا ہے جبکہ اس اقدام سے رجسٹرڈ افراد اور بینکوں کے لیے اکاؤنٹنگ کے عمل میں مزید پیچیدگیاں آئیں گی۔

اس کے منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑیں گے کیونکہ تمام اشیاء کی خریدوفروخت کے سلسلے میں ہونے والا لین دین یا تو نقد یا پھر ہنڈی نظام پر منتقل ہو جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بڑی مقدار میں اجناس اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی تجارت میں منافع کی شرح 0.5فیصد سے ایک فیصد کے درمیان ہوتی ہے جو انتہائی کم ہے لہٰذا رجسٹرڈ افراد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ بینکاری لین دین پر 0.6فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس دے سکیں۔

کراچی چیمبر نے تجویز دی کہ بینکاری لین دین اور انسٹرمنٹس پر 0.6فیصد نئے ٹیکس کو نافذ کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاوت کی جائے تاکہ اس ٹیکس سے متعلق ان کے سوالات اور اس سے پیدا ہونے والے مضمرات پر غورو فکر کیاجاسکے۔کراچی چیمبر کے مطابق انکم ٹیکس آرڈیننس میں سیکشن165بی کو متعارف کرانا حکومت کے اقتصادی وژن کے برعکس ہے اس اقدام سے ایف بی آر کویہ اختیارہے کہ وہ کسی بھی نان ریزیڈنٹ پاکستانی کے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرے اور جہاں ضروری سمجھا جائے ٹیکس کی وصولی کے لیے ان اکاؤنٹس میں موجود فنڈز کے ذرائع معلوم کرنے کے لیے ایسے اکاؤنٹس ہولڈرزسے چھان بین کرے۔

اس شق سے ٹیکس ریونیو کی مد میں کوئی خاص وصولی تو نہیں ہوگی البتہ بے پناہ نقصانات ہوسکتے ہیں کیونکہ اس اقدام سے اکاؤنٹ ہولڈرز کے درمیان گھبراہٹ پھیلے گی اور ملک سے فنڈز منتقل ہونا شروع ہو جائیں گے۔کراچی چیمبر نے ممکنہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز دی کہ سیکشن 165بی اور پچھلے سال شامل کیے گئے سیکشن165اے کو ختم کیا جائے۔کراچی چیمبر نے مزید نشاندہی کی کہ بجٹ 2015-16 میں کنٹینرز میں پیکنگ لسٹ اور انوائس غائب یا گم ہونے کی صورت میں لگنے والے جرمانے کو25000سے بڑھا کر50000کر دیا گیاہے۔

اس مسئلے کو پچھلے سال کسٹم حکام سے مشاورت کے بعد حل کیا گیا تھا جس کے تحت وہ تمام کنٹینرز جن کی پیکنگ لسٹ اور انوائس غائب ہو گی ایسی صورت میں5ہزا ر روپے جرمانے عائد کیا گیا تھا لیکن اب نئے وفاقی بجٹ میں اس جرمانے کی حد50ہزار روپے تک بڑھا دی گئی ہے جس سے کرپشن کے دروازے کھل جائیں گے اور درآمد کنندگان کواس کی سزا بگھتنا پڑے گی۔کراچی چیمبر نے اس اقدام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جرمانے کی حد میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

اگر لیٹر آف کریڈٹ میں انوائس اور پیکنگ لسٹ کنٹینر کے ساتھ فراہم کرنے کا ذکر موجود ہوتو درآمدکنندگان کو ان دستاویزات کے غائب یاگم ہونے کی سزانہ دی جائے جو شپر کی غلطی سے یا کسی اور وجہ سے نکال دیے جاتے ہیں۔کراچی چیمبر نے مزید کہاکہ خیبر پختونخواہ میں نئی صنعتیں لگانے پر انکم ٹیکس میں چھوٹ سے ملک کے دیگر حصوں میں موجود وہ صنعتیں اور خام مال کے درآمد کنندگان جو 6.5فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس اور22فیصد تک جی ایس ٹی جمع کرواتے ہیں بری طرح متاثر ہوں گے یہ ایک بڑی استثنیٰ ہے جس سے ریونیو میں کمی کے خدشات ہیں کیونکہ ایف بی آر میں نہ تو اتنی گنجائش ہے اور نہ ہی ایسی حکمت عملی جس کے ذریعے درآمدی خام مال کی فروخت کو روکا جاسکے۔

کراچی چیمبرکے مطابق بظاہر تو خیبر پختونخوا میں خام مال کی کھپت ہو گی لیکن یہ خام مال کراچی اور لاہور کی اسپاٹ مارکیٹوں میں فروخت کیاجائے گا جس کی روک تھام کے لئے فی الحال کوئی معقول حکمت عملی نظر نہیں آتی لہٰذا کراچی چیمبر کا یہ مؤقف یے کہ اس چھوٹ کا دائرہ کار کراچی شہر کے تاجروں اور صنعتوں تک وسیع کیاجائے کیونکہ کراچی شہر بھی خیبر پختونخوا کی طرح دہشت گردی کا شکار ہے۔

کراچی چیمبر نے سیکشن 148کے تحت ودہولڈنگ ٹیکس میں ملنے والی چھوٹ کو جاری رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا جس کی وجہ سے ہر سال ریونیو کی مد میں 15سے20ارب کا نقصان ہوتاہے۔ کراچی چیمبرنے عا م آدمی کے استعمال میں آنے والی اشیاء مثلاً چائے کی پتی پر ڈیوٹی اور ٹیکسز میں ریلیف نہ ملنے کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ کسٹم،سیلزٹیکس ، ودہولڈنگ ٹیکس کی زائد شرح سے صرف اسمگلرز اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا غلط استعمال کرنے والے مستفید ہوتے ہیں۔

ٹیرف اسٹرکچر اور ٹیکس اناملیز کے باعث کاغذ کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی ہے پرنٹڈ کتابیں اور مواد کی درآمد پر کوئی ڈیوٹی نہیں جبکہ انڈسٹری میں استعمال ہونے والے کاغذ پر20فیصد کسٹم ڈیوٹی،20فیصد سیلز ٹٰیکس اور6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے صنعتوں کے لیے اپنی پیداواری سرگرمیاں جاری رکھنا ناممکن ہو گیاہے۔کراچی چیمبر اور پیپر مرچنٹس ایسوسی ایشن کی بارہا اپیلوں کے باوجود حکومت نے اس جائز شکایت کو دور کرنے پر توجہ نہیں دی۔

کراچی چیمبر نے مزید کہاکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ خوردنی تیل کی مقامی خریداری پر2فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا گیاہے جس کے باعث صارفین کے زیر استعمال اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا جبکہ ڈی ٹی آر ای کے تحت صرف خیبر پختونخوا کے برآمد کنندگان کے لیے خوردنی تیل کا برآمدی کوٹہ بڑھا کر3ماہ کے لیے 1000 میٹرک ٹن سے3000 میٹرک ٹن کر دیا گیاہے۔ یہ اقدام ریونیو وصولی کو بری طرح متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر تیل کے بیجوں سے پیداوار کرنے والی صنعتوں پر بھی اثر انداز ہو گا جو درآمدی خوردنی تیل سے مسابقت نہیں کر پائیں گی لہٰذا اس اقدام کو واپس لیاجائے۔

کراچی چیمبر کے مطابق ٹیکس نظام میں اصلاحات لانے کے لیے پچھے سال ٹیکس ریفارمز کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سلسلے میں ملک بھر کے چیمبر ز، ٹریڈ باڈیز،پیشہ ورانہ ماہرین اور ایسوسی ایشنز نے تجاویز بھی دیں مگر ان تجاویز کو وفاقی بجٹ2015-16میں مکمل طور پر نظر انداز کرد یا گیا۔کمیشن کی رپورٹ اورتجاویز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایف بی آر اور اس کے ماتحت کام کرنے والے اداروں سے بے جا اختیارات واپس لیے جائیں جو نہ صرف ہراساں کرنے اور کرپشن کا باعث ہیں بلکہ مجموعی ٹیکس کو بڑھانے میں رکاوٹ ہیں۔

کراچی چیمبر کے مطابق اس سال 2015-16کا بجٹ بھی پچھلی دو دہائیوں میں پیش کیے گئے بجٹ جیسا ہی ہے ۔253ارب روپے کا اضافی ٹیکس ریونیو نئے ناموں سے بلاواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیاجائے گا جبکہ دیہی معیشت کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا گیا۔بدقسمتی سے کراچی کی تجارت وصنعت پر ایک بار پھر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیاہے۔حکومت نے بلاواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہوئے مشکل اور جرات مندانہ فیصلے کرنے سے گریز کیاجن سے ملکی قیادت کے اقتصادی وژن کو سپورٹ مل سکتی تھی ۔

کراچی چیمبر نے مزید کہاکہ چین پاکستان اقتصادی راہدی کے قیام کا منصوبہ بلاشبہ دور اندیشی اور جیو اسٹریٹجک اقدام ہے لیکن ستم ظریفی ہے کہ اس اقدام کو موجودہ فرسودہ ٹیکس نظام سپورٹ نہیں کر رہا۔یہ بات آنے والے دنوں میں دیکھی جائے گی کہ پارلیمنٹ ان اقدامات کو کس طرح زیر بحث لاتی ہے اور کن ضروری تبدیلیوں کو متعارف کرایاجاتا ہے تاکہ ان اقدامات کو عوام دوست بنایاجاسکے۔

متعلقہ عنوان :