بجٹ میں حکومت اہداف حاصل نہیں کرسکی ‘ وجوہات سامنے لائی جائیں ‘ بغیر احتساب کے چلنے والے اداروں کا کڑا احتساب کیا جائے ‘اراکین سینیٹ

جمعہ 12 جون 2015 16:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء) اراکین سینٹ نے کہا ہے کہ بجٹ میں حکومت اہداف حاصل نہیں کرسکی ‘ وجوہات سامنے لائی جائیں ‘ بغیر احتساب کے چلنے والے اداروں کا کڑا احتساب کیا جائے ‘ موجودہ بجٹ میں 489ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ‘ ہر پاکستانی 2600سے زائد مزید ٹیکس ادا کریگا ‘ بجٹ کو عوامی کہا گیا ‘ بتایا جائے کہاں سے عوامی بجٹ ہے ‘ اسمبلی اور سینیٹ سنجیدہ فورم ہیں، ہمیں یہاں غیر سنجیدگی سے گفتگو نہیں کرنی چاہئے ‘موضوع پر کم اور ایک دوسرے پر زیادہ تنقید ہورہی ہے ‘ جب تک آئی ایم ایف سے قرضہ لیکر بجٹ بنائینگے تو ان کو بھی راضی کرنا پڑیگا۔

جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ایوان بجٹ پر بات کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں ہے، بجٹ کے اعدادوشمار بے جان، بغیر پالیسی اور ویژن کے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بے معنی ہونگے، بجٹ کے کئی اہداف پورے نہیں ہوئے اور اس کی کوئی ذمہ داری بھی لینے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی اس معاملے پر بات کی جارہی ہے کہ بجٹ کے اہداف کیوں پورے نہیں ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہماری قوم ہارنے کی عادی ہوچکی ہے ہمیں کسی معاملے پر کوئی پرواہ نہیں ہے، ایک بے حسی سی چھائی ہوئی ہے، ہمارے حکمرانوں نے ادارے نہیں بنائے بلکہ اپنے اثاثے بنائے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم ایسی عجیب قوم ہیں جس کا کوئی نظریہ نہیں ہے، جس ملک میں بجلی ، گیس اور بدامنی جیسے مسائل ہوں وہاں بجٹ سے متعلق اتنے ہائی ٹارگٹ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہم ان کو پورا ہی نہیں کرنا چاہتے، انہوں نے کہا کہ بغیر احتساب کے چلنے والے اداروں کیخلاف کارروائی کی جائے اور ان کا کڑا احتساب کیا جائے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن قوم سے معافی مانگیں انہوں نے اداروں کو نہیں بنایا، بیرون ملک پڑے ہوئے پیسے کون ملک میں لیکر آئیگا ، ادارے بنانے میں سینیٹ اپنا کردار ادا کرے۔

(جاری ہے)

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ جی ڈی پی میں زراعت اور معاشی صورتحال کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے، بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سارے اختیارات پارلمینٹ کو دیئے کیا اس پر معافی مانگیں؟ انہوں نے کہا کہ پنجاب کیلئے بجٹ میں رقم رکھی گئی ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمیں اپنا حق چاہئے ، بجٹ کے اندر لوگوں کو بے وقوف بنایا گیا۔

489 ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے اس کا مطلب ہے کہ ہر پاکستانی پر 2626 روپے مزید ٹیکس بڑھے گا، بجٹ کے اندر سندھ کی ڈویلپمنٹ کیلئے سات ارب روپے رکھے گئے جو نا انصافی ہے۔ وفاقی حکومت سی سی آئی میں ہونیوالے فیصلوں سے سندھ کو آگاہ نہیں کرتی، انہوں نے کہا کہ کراچی، حیدر آباد موٹروے اہم منصوبہ ہے اس کیلئے پچاس ملین روپے رکھے گئے، لیاری کیلئے سو ملین اور انڈس ہائی وے کیلئے بہت کم رقم رکھی گئی ، سندھ میں لگنے والے نیوکلیئر پلانٹ کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا ، بحث میں حصہ لیتے ہوئے جے یو آئی ف کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ سینیٹ میں معاملہ الٹا ہے، اعتزاز احسن اگر حکومتی بنچوں پر ہوتے تو وہ شائد وہی تقریر کرتے جو مشاہد اللہ خان نے کی تھی اور مشاہد اللہ خان ان کی جگہ ہوتے تو وہ اعتزاز احسن جیسی تقریر کرتے، یہ ہماری روایت بن گئی ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گفتگو میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، بجٹ کے موقع پر بھی دیکھتے ہیں کہ کس طرح اپوزیشن اور حکومت نے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی اور سینیٹ سنجیدہ فورم ہیں، ہمیں یہاں غیر سنجیدگی سے گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔ ہم موضوع پر کم اور حکومت پرزیادہ تنقید کرتے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ہماری تقاریر براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر ہوں، انہوں نے کہا کہ جب تک آئی ایم ایف سے قرضہ لیکر بجٹ بنائینگے تو ان کو بھی راضی کرنا پڑیگا، کچھ ٹیکس قوم کیلئے ناقابل برداشت ہوتے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کی کمزوری ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ایسے ٹیکس لگائے گئے، ٹیکسوں سے جان چھڑوانی ہے تو ہمیں اپنے وسائل کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنانا ہوگا، جن لوگوں سے قرضے لئے ہیں اگر انہیں پورا کرنا ہے تو ہمیں اپنی طرز زندگی بدلنی ہوگی ۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ بجٹ کا سب سے زیادہ اثر متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں آج بھی ملازمین 8 ہزار تنخواہ دے رہے ہیں، کم از کم 13 ہزار تنخواہ پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ہمیں ایسی سفارشات مرتب کرنی چاہئیں جس سے متوسط طبقہ زیادہ متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں بجٹ سے اتنا زیادہ مایوس نہیں جتنا ایوان میں ہونیوالی تقریروں سے مایوس ہوں، ایک دوسرے پر الزامات نہ لگائے جائیں ، نا انصافی کو ختم کیا جائے، انہوں نے مطالبہ کیاکہ باچا خان ایئر پورٹ کیلئے بجٹ میں رقم مختص کی جائے۔

بحث میں ححصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر چودھری جاوید عباسی نے کہا کہ غیر ملکی اداروں نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہے، حکومت نے معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے بہتر فیصلے بھی لئے ہیں، بجٹ خسارے میں کمی آئی ہے جس سے 500 ارب کی بچت ہوئی ہے۔ افراط زر دس فیصد سے کم ہوا ہے اور سنگل ڈیجٹ میں آیا ہے یہ سب کچھ حکومت کی منصوبہ بندی کی وجہ سے ہواہے، پی ایس ڈی پی میں تاریخ کا سب سے زیادہ پیسہ رکھا گیا ہے، کسٹم ڈیوٹی میں بیس فیصد کمی کی گئی ہے، بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ حکومت سپلیمنٹری گرانٹ کی ایوان سے منظوری لے۔

بھارت کی جانب سے پاک چائنا اقتصادی راہداری کیخلاف بات کی گئی ہمارے ملک میں اپنی حکومت اس کو کیوں متنازع بنا رہی ہے اور اس پر کالا باغ کی طرح کا داغ لگ جائیگا۔

متعلقہ عنوان :