سندھ ہائیکورٹ نے عدالتی گھیراؤ ، توہین عدالت اور صحافیوں پر تشدد کیس میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا

جمعہ 12 جون 2015 14:28

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء ) سندھ ہائیکورٹ نے عدالتی گھیراؤ ، توہین عدالت اور صحافیوں پر تشدد کیس میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ 23 مئی کو پولیس نے سندھ ہائیکورٹ کو یرغمال بنایا تھا ، بتایا جائے نقاب پوش اہلکار کس نے تعینات کیے تھے ، ان پولیس افسروں کی نوکری تو اب گئی ۔

جمعہ کو سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس اہلکاروں کو معمولی جرمانے کیے جائیں ، عدالت بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کردے جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کارروائی کی تو سب نوکری سے جائیں گے ، عدالت کے باہر غنڈوں نے نقاب لگا رکھے تھے ، پہچاننا مشکل تھا کہ پولیس والے ہیں یا غنڈے ہیں ، ہم پولیس کو فائرنگ کا حکم بھی دے سکتے تھے ، سب دیکھ رہے تھے کہ عدالت کے باہر کیا ہورہا ہے ، اس سے بڑی دہشتگردی اور کیا ہوگی ، ان اہلکاروں کے خلاف اے ٹی سی میں مقدمہ چلانا چاہیے ۔

(جاری ہے)

عدالت میں آئی جی سندھ کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیئے کہ 23 مئی کے واقعہ سے متعلق حلف نامے جمع کرا دیئے ہیں ، عدالتی دروازے پر تعیناتی اور صحافیوں پر تشدد توہین عدالت نے ، آئی جی نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جو توہین عدالت ہو ، ضمانت کیلئے عدالت آنے پر ذوالفقار مرزا کو نہیں روکا گیا ۔ عدالت کا خارجی گیٹ روزانہ تین بجے بند کردیا جاتا ہے ۔ واقع عدالت کے گیٹ کے باہر پیش آیا ۔ نقاب پوش اہلکاروں نے پہلے رینجرز اہلکاروں کو شناخت کرائی ، ایس ایچ او پریڈی بھی عدالت کے باہر موجود تھے ، معاملہ عدالتی حدود سے باہر ہوا ۔