قومی بجٹ کسی بڑے معاشی اْٹھان کے تصور سے خالی ہے‘ آئی پی ایس کے زیر اہتمام سیمینارسے ماہرین کاخطاب

جمعرات 11 جون 2015 21:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 جون۔2015ء) وفاقی بجٹ2015-16 پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیر اہتمام سیمینار میں میں ماہرین نے کہاکہ قومی بجٹ کسی بڑے معاشی اْٹھان کے تصور سے خالی ہے ،موجودہ بجٹ پیش کرنے والوں کے مطابق ملکی وسائل سے صرف پرانے قرضوں کی ادائیگی، دفاعی ضروریات کی تکمیل اور انتظامی مشینری کے اخراجات ہی پورے کیے جا سکتے ہیں، ملک کے باقی معاملات کو حسبِ معمول مزید قرضوں سے چلا یا جائے گا۔

جمعرات کو ہونے والے سیمینار سے چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد پروفیسر خورشید احمد، سابق چیف اکانومسٹ حکومت پاکستان فصیح الدین،ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن، سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن، ماہرمحاصل ملک محمد عرفان، رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد آفتاب اور دیگر ماہرین نے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

بجٹ میں ٹیکس کے بارے میں کیے گئے اقدامات پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر خورشید نے کہا کہ حکومت ٹیکس نیٹ کے پھیلا? میں اضافہ کرکے ٹیکس نہ دینے والے افراد کو اس میں لانے کے بارے میں مخلص دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے بجائے حکومت کی پالیسیاں پہلے سے ٹیکس دینے والے افراد پر ہی مزید بوجھ لادنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔انہوں نے اپنی دلیل کو ہا?س ہولڈ انکم سروے کی مثال سے واضح کیا، جس کے مطابق ملک میں تقریباً 50لاکھ افراد ایسے ہیں جن کی سالانہ آمدنی 15لاکھ روپے سے زائد ہے، جبکہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد محض 6 سے 8 لاکھ ہے۔

انہوں نے سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ کے بیان کا حوالہ بھی دیا، جس کے مطابق حکومت کے پاس ایسے 38لاکھ سے زائد افراد کی فہرست موجود ہے جو کروڑپتی ہیں اور ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ سے قبل بزنس کمیونٹی کے ساتھ نشستوں اور پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی کی پیش کی گئی 80 فی صد سفارشات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے بجٹ میں نظرانداز کیے گئے دیگر امور کی طرف بھی توجہ دلائی جن میں زراعت، بے روزگاری، بڑے پیمانے کی صنعتیں، چھوٹی اور درمیانی صنعتیں، افراطِ زر، قیمتوں میں کمی اور لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا شامل ہیں۔

انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ غیرملکی قرضوں پر انحصار میں کمی لانا حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہونا چاہیے تھا۔ فصیح الدین نے کہا کہ اگرچہ حکومت کی کارگردگی پچھلے سال سے قدرے بہتر ہے تاہم جن چیزوں کاوعدہ کیا گیا تھا ان کا دور دور تک نشان نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ماسوائے افراطِ زر کے باقی تمام اہم اہداف حاصل ہونے سے رہ گئے ہیں۔

‘‘تجزیہ کاروں نے بجٹ کو معاشی، سماجی اور طرزِ حکمرانی کے پس منظر میں پرکھتے ہوئے مختلف نوعیت کے ٹیکسوں میں اضافے اور سبسڈی میں کمی پر سوال اٹھاتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ اس کے افراط زر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جس کی زد میں زیادہ تر وہ لوگ آئیں گے جن کے ذرائع آمدنی محدود ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2015-16 کے لیے حکومت کے طے کردہ اہداف بہت معمولی نوعیت کے ہیں جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حکومت کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کسی بڑے معاشی اٹھان کے لیے بھرپور کوشش کی جائے۔

حد یہ ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کسی پالیسی فریم ورک یا روڈ میپ کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔مقررین کی مجموعی رائے یہ تھی کہ بجٹ عمومی طور پر کسی بھی طویل مدتی بصیرت افروز پہلو سے مبرا نظر آتا ہے۔ ان کے نزدیک اس دستاویز میں کسی بڑی معاشی سرگرمی کا آغاز کرنے اور مجموعی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تخلیقی نقطۂ نظر کا فقدان ہے۔

متعلقہ عنوان :