سپریم کورٹ کا علاقائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے قانون سازی نہ کرنے پر اظہار بر ہمی

جمعرات 11 جون 2015 14:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 جون۔2015ء) سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کے نفاذ کے بارے میں اٹھائے گئے اقدامات پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے پنجابی اور سرائیکی سمیت دیگر علاقائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے قانون سازی نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور 2 جولائی تک مفصل رپورٹ طلب کی ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزارت اطلاعات نے اردو کے نفاذ کے حوالے سے آرٹیکل 251 پر عملدرآمد بارے سمری کابینہ ڈویژن کو ارسال کر دی ہے اگلے اجلاس میں منظوری کا قومی امکان ہے جبکہ دو رکنی بینچ کے سربراہ سینئر ترین جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں اردو کے نفاذ بارے سیاسی مصلحتوں کو آڑے نہیں آنے دیں گے ۔

(جاری ہے)

کابینہ کیا فیصلہ کرتی ہے اس سے سروکار نہیں ، آرٹیکل 251 پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کروائیں گے ۔ صوبائی اور علاقائی زبانیں ہمارا قومی ورثہ ہیں جن کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے عوام کے پیسوں سے وجود میں آنے والی حکومت اور عوام کے تنخواہ دار ادارے اب ان کو زبان کی سہولت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ وکلاء حضرات انگریزی زبان کا فائدہ اٹھا کر سادہ لوح موکلوں سے ایک عدالتی نوٹس پڑھنے کا 500 سے 5000 روپے تک وصول کر رہے ہیں انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ رو ز دیئے ہیں ۔

صوبائی زبانوں کی ترویج و اشاعت اور اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے مقدمے کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کی ۔ اس دوران درخواست گزار کوکب اقبال ایڈووکیٹ سمیت دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے جسٹس جواد نے کاہ کہ ایک پرائمری پاس مظفر گڑھ کا دیہاتی نے جو بات کی ہے میرا تو دل ہی ہل گیا ہے اس کی دعائی آپ کو لگیں گی وہ بڑا خوش کر اردو کا نوٹس بھیج رہا ہے جس کو پڑھ کر وہ آ گیا وکیل 500 سے 5000 روپے لے کر یہ نوٹس پڑھ کر دیتے ہیں وہ انگریزی میں نوٹس دیکھ کر گھبرا جاتا تھا وہ مجبوری میں پیسے دیتا رہا ہے یہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر سب کو سوچنا چاہئے ۔

میرے بچے پنجابی بولتے ہیں پسند نا پسند کا ایشو نہیں ہے کوئی یہ کہے کہ اس کے لئے دشواریاں ہیں اگر کوئی مجرم آ کر کہے کہ اس کو کوئی دشواری ہے تو کیا ہم اس کی بات مان لیں گے ٹیکس کے معاملے میں ایک شخص نے کہا کہ اسے انگریزی میں لکھی باریک چیزوں کا پتہ نہیں چل رہا آسان فہم زبان میں سب کچھ لکھنا چاہئے ۔ اگر انگریزی نہیں آتی تو ٹیکس کیسے ادا کریں گے ۔

سارا کچھ مشکل ترین انگریزی میں لکھا ہوا ہے کون کیا کرے ۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ ڈویژن نے اس پر کام کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ زبانی بات نہ کریں تحریری جواب دیں جس پر لاء افسر نے جواب کی کاپی عدالت میں پیش کی جس کا عدالت نے بغور مطالعہ کیا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم اور کابینہ ڈویژن سے مشاورت کی گئی ہے جس کے بعد یہ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے سیاسی طور پر یہ حساسیت ہے جسٹس جواد نے کہا کہ سندھی اور اردو میں کیا جا رہا ہے ۔

اردو ، سرائیکی ، مراہوں میں معاملہ ٹھیک ہوگا ۔ صوبے صوبائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کریں گے کے پی کے اور بلوچستان نے قانون بنا دیا ۔ کھل کر بتا دیں کہ ہم نے آئین کی پاسداری نہیں کرنی کیونکہ سیاسی مصلحت آڑے آ رہی ہے جہاں تک صوبوں کی بات ہے سوائے پنجاب کے باقیوں نے قانون بنا لیا ہے پنجاب کہتا ہے کہ اردو چلنے دیں صوبائی نمائندے موجود ہیں ۔

پنجاب حکومت کہتی ہے کہ پنجابی کو ماریں گولی اردو میں کام چلنے دیں ۔ یہ ہم نہیں ہونے دیں گے پنجابی ہماری زبان ہے ہمارے لئے مشکل ہو گی اردو رابطے کی زبان ہے ہمارے چیف جسٹس فصیح زبان تھے بلوچستان میں پشتو ، براہمی ، دری اور فارسی میں بات کرتے تھے ۔ سندھ میں سندھی ، جنوبی پنجاب میں سرائیکی اور ہمارے ساتھ پنجابی میں گفتگو کرتے تھے وہ صلاحیت تو ہم نہیں ہے ہماری کوشش یہ ہے کہ مقامی صوبائی زبان سیکھ لیں اپنی مادری زبان کے علاوہ دیگر زبانیں سیکھنے کے لئے قاعدے خریدے ہیں اولیاء کرام کے سرائیکی میں شاعری کی وجہ سے سرائیکی بولنے میں مدد ملی ہے کوئی ایسی مقامی زبان نہیں ہے جس کے بارے صوبوں نے قانون سازی کر کے اس کی ترویج و اشاعت نہ کی ہو ۔

شاہ کے کلام ، سچل سرمست کلام بھی سمجھا جا رہا ہے کون سی سیاسی مصلحت ہے اعظم خان آپ نے واضح کر دیا ہے اعظم خان نے کہا کہ اگر ہم اردو میں کوئی خط لکھیں گے سندھ والے اگر یہ نہیں چاہتے تو پھر یہ کیسے ہو گا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ کوئی مشکل نہیں ہے وفاق اور صوبوں نے تعلیم کا نظام ایسا کر دیا ہے اب ہر کوئی ان پڑھ ہے ۔ انگریزی کی بجائے عام پڑھا لکھا بھی اردو کو کچھ نہ کچھ سمجھ لے گا ۔

سات آٹھ آوازوں کے رسم الخط ایک ہی طرح کا استعمال ہو رہا ہے ۔ جو سب سے روٹ ترن علاقے ہیں وہاں شاید آپ کی بات سمجھ میں آتی ہے ۔ اعظم خان نے بتایا کہ وہ آخری بار 2010 میں سندھ گئے تھے جسٹس جواد نے کہاکہ کاسیو آخری قصبہ ہے جس کے بعد بھارتی بارڈر آ جاتا ہے اور پارام بھگت کبھی بھی کاسیو سے باہر نہیں گیا وہاں بھی لوگ اردو میں بات کرتے ہیں ۔ آپ چاہتے ہیں کہ سب کچھ اردو میں نہ ہو جہاں بھی کوئی زبان فیل ہو جاتی ہے وہاں اردو زبان کامیاب ہو جاتی ہے ۔

پنجابی کی ضرب المثل ہے ۔ حجتان ڈھیر ، یہ ہو کیا رہا مجھے تو کوئی سمجھا دے ،انگریزی تو سب کو سمجھ آتی ہے اردو سمجھ نہیں آتی سیاسی مصلحت آڑے آ رہی ہے لکھ کر دیں ۔ پنجاب کی کوئی زبان اور کلچر نہیں ہے ۔ بابا پھلے شاہ ، شاہ حسین ، خواجہ غلام فرید ، وارث شاہ نے کیا سب کلام اردو اور انگریزی میں لکھا ہے ہم جیسے مراعات یافتہ انگریزی میں رچا ہوا طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے میں نے اردو میں فیصلے لکھنے شروع کئے اب کوئی مشکل نہیں ہے ۔

اب مسلسل اردو میں فیصلے لکھوائے جا رہے ہیں اگر ہم ساری زندگی انگریزی پر لکھنے کے باوجود اردو میں فیصلے لکھ رہے ہں تو حکومت یہ کام کیوں نہیں کر سکتی میں پختہ کار اردو لکھاری نہیں ہوں ۔ 42 سال ہو گئے ۔ کوکب اقبال نے کہا کہ ادارہ فروغ اردو کے لئے دو سال آسامی خالی رہی اب ڈی ایم جی کا افسرے لگا دیا گیا اب بیوروکریسی ہی مسئلہ بن گئی ہے جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست اردو میں کیوں نہیں لکھی ۔

کوکب اقبال نے کہا کہ یہ غلطی ہوئی ہے جسٹس جواد نے کہا کہ الخیری اردو میں درخواست لکھی ہے جسٹس اقبال حمید الرحمان قومی مصلحت کا تقاضا ہے کہ ایک زبان ہو ۔ قائد اعظم نے بھی کہا تھا جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے ملک میں زبانوں کا گلدستہ موجود ہے ۔ بلوچستان کے بارے میں بتایا گیا کہ قاضی کوٹ میں تمام تر کارروائی اردو میں لکھی جا رہی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وہ خوبصورت زبان میں فیصلے لکھ رہے ہیں کچھ اصلاحات فارسی کی استعمال کی جا رہی ہیں ۔

جسٹس اقبال حمید الرحمان نے کہا کہ اردو میں تراجم موجود ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ ابھی بھی ماتحت عدالتوں کے فیصلے شستہ زبان میں تحریر کئے جا رہے ہیں۔ جسٹس صمدانی حیدر آباد دکن سے تعلیم حاصل کی تھی فزکس‘ ریاضی کا علم جانتے تھے۔ 1951ء میں وہ پاکستان میں آئے تھے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان نے کہا کہ اردو میں بہت سی زبانوں کے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہماری مقامی زبانیں بہت سے الفاظ حزب کر سکتی ہیں سوموٹو کے بارے میں بھی عام آدمی کہتا ہے کہ سپریم کورٹ ہے حکم جارتی کرتی رہتی ہے‘ پنجاب میں پنجابی زبان کو بے بہرہ کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کی جانب سے بتایا گیا کہ اردو میں بہت سے الفاظ پنجابی کے ہیں اور پنجابی میں بہت سے الفاظ اردو کے موجود ہیں۔ پنجابی کلچر تو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔

ایف ایم 95 چینل پنجابی میں ہے جسٹس جواد نے کہا کہ سب سے پیچھے آپ کا صوبہ بنتا ہے۔ میرے تمام اہل خانہ سری نگر سے آئے ہیں وہ اردو جانتے ہیں اس کے باوجود ہم پنجابی بولتے ہیں۔ صوبائی زبانیں ہمارا قومی ورثہ ہیں جن کو آگے پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ آج کی نسل وارث شاہ‘ مادھو لال کے بارے میں نہیں جانتی‘ نجم حسین سید لاہور میں موجود ہیں‘ گرونانک یونیورسٹی امرتسر سے ان کے پاس مہمان آئے تھے جو نجم ضیاء کو گرو مان رہے تھے ان کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کی جا رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ 42 سال انتظار کر لیا۔ اب مزید کتنا انتطار کریں۔ مہینے کے اخر تک آپ کو وقت دے دیتے ہیں اس میں پیش رفت ضروری ہے۔ اعظم خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سب سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے اس لئے کابینہ کو سمری بھجوائی گئی ہے آرٹیکل 251 کا تذکرہ کیا ہے اس پر ضرور کچھ ہو گا جسٹس جواد نے کہا کہ اگر کابینہ نے تسلیم نہ کیا تو پھر کیا ہو گا۔

اردو کے بارے میں پیش رفت کا سہرا کوکب اقبال کے سر ہے اعظم خان نے کہا کہ سمری خفیہ ہے عدالت نے کہا کہ ہم واپس کر دیتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے اردو میں فیصلہ تحریر کرایا۔ موجودہ حکم گزشتہ حکم 5 جون 2015ء سے پیوستہ ہے۔ آرٹیکل 251 کے حوالے سے کچھ پیش رفت وفاقی حکومت اور 3 صوبائی حکومتوں بلوچستان‘ کے پی کے اور سندھ کی طرف سے سامنے آئی ہے۔

جمعرات کو اعظم خان سیکرٹری اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ پیش ہوئے ہیں اور انہوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کی وزارت نے ایک سمری برائے کابینہ سیکرٹری کابینہ کو ارسال کر دی ہے جس میں آئین آرٹیکل 251 کے اطلاق کے بارے میں تجاویز و سفارشات دی گئی ہیں۔ سیکرٹری موصوف کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 251 کے اطلاق میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی گہے چونکہ آجکل بجٹ اجلاس جاری ہے اور اس وجہ سے سمری کی منظوری کے لئے کچھ وقت درکار ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے کابینہ اجلاس میں انہیں امید ہے کہ سمری کی منظوری لے لی جائے گی۔

مندرجہ بالا ہالات میں مہلت کی استدعا معقول ہے۔ اعظم کی درخواست پر یہ مقدمہ کی سماعت بجٹ اجلاس کے بعد کی جائے گی۔ اب … 2 جولائی برائے مزید پیش رفت و کارروائی ہو گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انگریزی جب آتی نہیں تو پھر کیوں نفاذ کیا ہوا ہے۔ پرسوں ایک حکمنامہ ایک صفحے کا لکھوایا اس میں 25 غلطاں سٹینو گرافر نے کی ہیں۔ وقت اور توانائی بچے گی۔

میرے عام فیصلے 2 صفحات سے زیادہ نہیں ہوتے۔ اردو میں لکھا گیا فیصلہ دوبارہ چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صوبائی حکومتوں ماسوائے پنجاب نے مقامی زبانوں کی ترویج کے لئے نمایاں کارکردگی ظاہر کی ہے گزشتہ حکم میں ہم نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے نے مقامی زبانوں کی ترویج کے لئے قانون سازی بھی کر لی ہے سندھ بھی یہ کام کر رہا ہے اور ایسا 1972ء میں کر لیا گیا تھا۔

اب صرف پنجاب حکومت رہ گئی ہے جس نے تو قانون سازی کی ہے نہ ہی ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے پنجابی سرائیکی زبان سمیت مقامی زبانوں بارے کوئی بھی عمل بروئے کار لایا گیا ہو۔ پنجاب حکومت اس کا جواب دے اور اس بارے رپورٹ دی جائے۔ ہونا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے۔ ہماری نیت ضرور ہے کہ پنجابی اور سرائیکی سمیت دیگر مقامی زبانوں کی پنجاب میں ترویج کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ پنجاب حکومت آئندہ سماعت سے قبل رپورت عدالت میں جمع کروائے۔ یہ ہمارا ورثہ ہے کہ اگر اس کا تحفظ نہ کیا گیا تو ہمیں بھی تکلیف ہو گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وارث شاہ کے اشلوک کو گروگرنتھ میں سکھوں نے شامل کر دیا ہے۔

متعلقہ عنوان :