نئے بجٹ میں کچھ سیکٹرز کیلئے مراعات ہیں، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور بڑی سرمایہ کاری کیلئے ضروری اقدامات شامل نہیں ؛اوورسیزانوسٹرز چیمبر

بدھ 10 جون 2015 21:46

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 جون۔2015ء) اوورسیزانوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) نے کہا ہے کہ بجٹ 2015-16 میں کچھ سیکٹرز کیلئے مراعات اور اپنے اہداف رکھے گئے ہیں لیکن بجٹ میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور بڑی سرمایہ کاری کیلئے ضروری اقدامات شامل نہیں ہیں۔ جبکہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کیلئے بھی انتہائی محدود تجاویز شامل کی گئی ہیں۔

او آئی سی سی آئی کو اس بات کا ادراک ہے کہ حکومت سب کو خوش کرنے والا بجٹ نہیں پیش کرسکتی ہے مگر ملک میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں حائل مسائل اور بڑی سرمایہ کاری کیلئے درکار مراعات جس میں ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں کو بھی بجٹ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تھا۔او آئی سی سی آئی کے صدر عاطف باجوہ نے کہاکہ پچھلے سال کی گروتھ کو مدِّ نظر رکھا جائے تو 5.5فیصد کا جی ڈی پی گروتھ ٹارگٹ مینو فیکچرنگ سیکٹر کی 6.4فیصد متوقع گروتھ ، زرعی سیکٹر کی 3.9فیصد متوقع گروتھ اور سروس سیکٹر کی 5.7فیصد متوقع گروتھ پر منحصر ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ 4.3فیصدکا مالیاتی خسارے کا ٹارگٹ بھی مکمل طورپر 3100ارب کے ٹیکس حاصل کرنے سے مشروط ہے جو کہ 2014-15 کے کم کیے گئے ٹارگٹ سے 19فیصد زائد ہے۔انہوں نے کہاکہ 5.5فیصد کا جی ڈی پی گروتھ ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے ٹیکس بیس کو بڑھانے کے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ پچھلے سات مالی سالوں میں ٹارگٹس حاصل نہیں کئے جا سکے ہیں لہٰذا بہتر ہوتا اگر ٹیکس محاصل بڑھانے کیلئے مجوزہ اقدامات کا تفصیلی ذکر کیا جاتا جن کے ذریعے ٹیکس ادا نہ کرنے والے یا اپنی آمدنی سے کم ٹیکس دینے والے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

انہوں نے 700ارب روپے کے پی ایس ڈی پی پروگرام کو سراہتے ہوئے کہاکہ ملک اور معیشت کی ترقی کیلئے ضروری پراجیکٹس کی تکمیل کیلئے اس پیسے کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے ہاؤسنگ، زراعت، ٹرانسمیشن لائنز، کولڈ اسٹوریج اور ہلال گوشت کے پراجیکٹس اور خیبر پختونخواہ صوبے کو دی جانے والی مراعات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ صوبہ خیبر پختونخواہ کو دی جانے والی مراعات کا دائرہ کا پورے ملک تک وسیع کیا جانا چاہئے تھا۔

انہوں نے کارپوریٹ ٹیکس میں سال 2013ء کی پالیسی کے تحت 1فیصد کمی کو سراہتے ہوئے کہاکہ 500ملین سے زائد کی آمدنی حاصل کرنے والے اداروں پر سُپر ٹیکس کے نفاذ سے بینکنگ سیکٹرکو 4فیصد جبکہ دوسرے اداروں کو 3فیصد اضافی ٹیکس دینا ہوگا جس سے کارپوریٹ ٹیکس میں ایک فیصد کمی کے مثبت اثرات زائل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ ٹیکس خاص طورپر اوآئی سی سی آئی کی ممبر کمپنیوں کو متاثر کرے گا۔

عاطف باجوہ نے کہاکہ غیر تقسیم شدہ کیش Reserves پر جوکہ 100فیصد پیڈ اپ کیپیٹل سے زائد ہوں پر 10فیصد ٹیکس سے کیپیٹل Formationمیں رکاوٹیں حائل ہوں گی اور نئے پراجیکٹس اور ریگولر سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بینکوں کو قرضے جاری کرنے میں بھی رکاوٹ ہوگی جوکہ اس وقت معیشت کیلئے نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملکی بینکنگ سیکٹر پہلے ہی بجٹ میں اعلان کردہ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے متاثر ہورہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ غیر دستاویزی معیشت کے حجم کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ میں نا ن فائلرز کیلئے بہت کم جرمانے سامنے لائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ او آئی سی سی آئی کی جانب سے دی گئی تجاویز کہ تمام ذرائع آمدنی رکھنے والے افراد پر یکساں ٹیکس لاگو کیا جائے اور ٹیکس اداکرنے والے افراد پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے کو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کا ہدف اب بھی ود ہولڈنگ ٹیکسز ہی ہیں ۔

او آئی سی سی آئی نے مطالبہ کیا کہ استعداد اور احتساب کے عمل سے قانون کی پاسداری کرائی جائے۔انہوں نے کہاکہ برآمدی شعبے خصوصاً ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کے لئے مراعات خوش آئند ہے جس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا ۔ انہوں نے ہاؤسنگ اور زراعت کیلئے مراعات کو سراہتے ہوئے کہا کہ او آئی سی سی آئی نے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 65کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے تجاویز دی تھیں جن کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ تشویش کا باعث ہے۔

عاطف باجوہ نے کہاکہ بجٹ تجاویز میں ورلڈ بینک کی جانب سے اٹھائے گئے Ease of Doing Businesss مسائل کے حل بھی شامل نہیں کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کسٹم ڈیوٹی کو 20فیصد کی سطح پر لانے سے کچھ کاروباری سیکٹرز کی لاگت میں کمی آئے گی مگر اس سے خام مال کی جگہ تیار مصنوعات درآمد کرنے کو بھی حوصلہ ملے گا۔انہوں نے کہاکہ مجموعی طورپر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے تناسب میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی ہے جبکہ یہ ضروری تھا کہ عام آدمی پر سے ٹیکس کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ `

متعلقہ عنوان :